إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَىٰ
قیامت یقیناً آنے والی ہے میں اسے ظاہر [١١] کرنے ہی والا ہوں تاکہ ہر شخص اپنی کوشش کا بدلہ پائے۔
فہم القرآن: (آیت 15 سے 16) ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہونے والی پہلی وحی میں دین کے تیسرے بنیادی عقیدہ کا یوں تعارف کروایا گیا ہے کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! قیامت ہر صورت برپا ہونے والی ہے لیکن اس کے وقت کو میں نے چھپا رکھا ہے۔ قیامت کابرپا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تاکہ ہر شخص کو اس کی اچھی بری کوشش کا بدلہ چکایا جائے۔ اے موسیٰ ! وہ شخص یعنی فرعون جو اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتا تجھے نبوت کے کام سے نہ روک دے کیونکہ اس نے اپنے آپ کو اپنی خواہشات کا بندہ بنا لیا ہے۔ اگر آپ توحید کی دعوت دینے اور نبوت کے کام سے رک گئے تو آپ ہلاک ہوجائیں گے۔ یہ بات پہلے بھی عرض ہوچکی ہے کہ دین کے اعتقادات میں توحید، رسالت اور آخرت کا عقیدہ بنیادی اور مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ باقی امور انہی کے متعلقات اور ان کا عملی تقاضا ہیں۔ یہاں موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت سے سرفراز کرتے ہوئے عقیدہ توحید کا پہلا تقاضا یہ بتلایا ہے کہ اللہ کی بندگی کی جائے۔ اس کے بعد قیامت برپا کرنے کا مقصد بیان کیا ہے تاکہ ہر انسان اپنے اچھے برے اعمال کی جزا اور سزا پائے۔ یاد رہے کہ جو شخص عقیدۂ توحید کا دعویٰ کرتا ہے اسے نبی آخر الزمان (ﷺ) کی رسالت اور قیامت کے قیام اور اس کی جزا، سزا پر بھی ایمان لانا ہوگا۔ ان میں کسی ایک بات کا انکار کرنا پوری کی پوری دعوت کا انکار کرنا ہے۔ اس فرمان سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ کسی ظالم کے خوف کی وجہ سے اللہ کی توحید کو نہ ماننا اور اس کا پرچار نہ کرنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔