سورة مريم - آیت 88

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَٰنُ وَلَدًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ رحمٰن کی اولاد ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 88 سے 95) ربط کلام : جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ کچھ بزرگ اللہ تعالیٰ کو اپنی بات منواسکتے ہیں انھوں نے اسی وجہ سے ہی یہ عقیدہ بنا رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اولاد رکھتا ہے۔ قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں انبیاء کرام (علیہ السلام) اور بزرگوں کو یہاں تک کہ معصوم بچوں کو بھی سفارش کا حق دیا جائے گا لیکن یہ لوگ اسی کے حق میں سفارش کرسکیں گے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ اجازت عنایت فرمائے گا۔ سفارش کرنے والی کتنی بڑی شخصیت کیوں نہ ہو وہ اس حد تک ہی سفارش کرپائے گی جس حد تک اسے سفارش کرنے کی اجازت ملے گی اس پر پوری امت کا اتفاق ہے۔ لیکن کچھ لوگوں نے اس سے بڑھ کر یہ عقیدہ اختیار کرلیا ہے کہ کچھ بزرگ اللہ تعالیٰ سے اپنی منوا سکتے ہیں بلکہ جسے چاہیں چھڑا سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہودیوں نے حضرت عزیر کو اور عیسائیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کے بیٹے قرار دیا۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی اور کی بات رد کرسکتا ہے مگر اپنے چہیتے بیٹوں کی بات رد نہیں کرسکتا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے لائق ہی نہیں اور نہ اس کی ضرورت ہے کہ وہ کسی کو اپنی اولاد بنائے۔ کیونکہ نہ اس کی بیوی ہے نہ وہ محبت کرنے یا کسی سے خدمت کروانے کا محتاج اور نہ اسے سلسلہ نسب رکھنے کی حاجت ہے۔ زمین و آسمانوں میں جو کچھ ہے وہ اس کا تابع فرمان اور عاجز غلام ہے۔ اس نے ہر چیز شمار اور ہر بات کا اندراج کر رکھا ہے۔ ہر کوئی اس کی بارگاہ میں اکیلا ہی پیش ہوگا یعنی اس کے ساتھ کوئی حمایتی اور سفارشی نہیں ہوگا۔ اس کے خلاف عقیدہ رکھنا اللہ تعالیٰ کے ہاں اتنا سنگین جرم اور بڑا گناہ ہے۔ اس کے بارے میں فرمایا ہے قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نیچے گر پڑیں۔ اولاد تو اسے رکھنے کی ضرورت ہے، جو سہارے کا محتاج ہو یا اسے کسی وارث کی حاجت ہو اللہ تعالیٰ ان ضرورتوں اور کمزوریوں سے مبّرا ہے وہ ہمیشہ سے قائم ہے اور ہمیشہ قائم دائم رہے گا۔ اسے کسی لحاظ سے کوئی کمزوری لاحق نہیں ہوتی وہ ہر کمزوری سے پاک ہے۔ نہ ہی وہ کسی کی محبت کے ہاتھوں مجبور ہے کہ وہ اسے بیٹا بنائے یا اسے اپنی خدائی میں کسی کو شریک کرے اس لیے آپ کو حکم ہوا ” کہو کہ وہ ذات پاک ہے جس کا نام اللہ ہے ایک ہے وہ معبودِ بر حق بے نیاز ہے۔ نہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا اور کوئی اس کا ہمسر نہیں۔“ [ الاخلاص] مسائل: 1۔ کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد گرداننا سنگین ترین گناہ ہے۔ 2۔ کسی کو اولاد بنانا اللہ تعالیٰ کے لائق نہیں۔ 3۔ اس ظالمانہ اور مشرکانہ عقیدہ کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ زمین پھٹ جائے، آسمان شق ہوجائیں اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر پڑیں۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں : 1۔ انہوں نے کہا اللہ نے اولاد بنا رکھی ہے حالانکہ اللہ اولاد سے بے نیاز ہے۔ (یونس :68) 2۔ انہوں نے کہا اللہ نے اولاد بنائی ہے حالانکہ اللہ اولاد سے پاک ہے۔ (البقرۃ:116) 3۔ مشرکین نے کہا کہ اللہ کی اولاد ہے اللہ اولاد سے پاک ہے بلکہ سارے اسی کے بندے ہیں۔ (الانبیاء :26) 4۔ اللہ کی کوئی اولاد نہیں اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی دوسرا الٰہ ہے۔ (المومنون :91) 5۔ ہمارے پروردگار کی شان بڑی ہے اس نے نہ کسی کو بیوی بنایا ہے نہ اس کی اولاد ہے۔ (الجن :3)