وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا
اور (اے پیغمبر!) اس کتاب میں مریم کا حال بھی ذکر کیجئے۔ جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر مشرقی جانب گوشہ نشین ہوگئی تھی۔
فہم القرآن: (آیت 16 سے 17) ربط کلام : حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کا انتہائی بڑھاپے کے عالم میں زکریا (علیہ السلام) کے ہاں پیدا ہونا غیر معمولی پیدائش اور مشکلات کے حوالہ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ گہری مماثلت اور ان کے خالہ زاد بھائی ہونے کی وجہ سے حضرت مریم علیہا السلام اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ شروع ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کے علاوہ دوسری شخصیات کے ذکر کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ سرور دو عالم (ﷺ) اور آپ کی امت کے لوگوں کی ڈھارس بندھائی جائے۔ ﴿وَکُلًّا نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ أَنْبَاء الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہِ فُؤَادَکَ وَجَاءَ کَ فِیْ ہَذِہِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَۃٌ وَذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ﴾ [ ھود :120] ” رسولوں کی خبروں میں سے ہر وہ خبر جو ہم آپ سے بیان کرتے ہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ اس سے ہم آپ کے دل کو مضبوط کریں اور آپ کے پاس اس سلسلہ میں حق آگیا جو مومنوں کے لیے باعث نصیحت اور یاد دہانی ہے۔ اس مقصد کے پیش نظر بعض انبیاء (علیہ السلام) اور شخصیات کا تذکرہ کرنے سے پہلے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے حکم دیا گیا کہ اے پیغمبر (ﷺ) ! وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ۔ قرآن مجید میں سے حضرت مریم (علیہ السلام) کی سیرت طیبہ کا بیان کریں تاکہ حضرت مریم علیہا السلام اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا جزو ٹھہرانے والوں کو معلوم ہو کہمریم علیہا السلام اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے۔ حضرت مریم علیہا السلام حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ ہیں۔ جن کی سوانح یہ ہے کہ ان کی والدہ حضرت عمران کی بیوی ہیں وہ میاں بیوی انتہائی بوڑھے ہوچکے تھے۔ بڑھاپے کے عالم میں حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ نے منت مانی کہ میرے رب! اگر تو مجھے بیٹا عطا فرمائے تو میں اسے تیرے لیے وقف کردوں گی لیکن ہوا یہ کہ بیٹے کی بجائے اللہ تعالیٰ نے اسے بیٹی عنایت فرمائی جس کا نام اس نے مریم رکھا، مریم کا معنی ہے (بلند وبالا) حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ نے عرض کی کہ بار الہا! یہ تو بیٹی پیداہوئی ہے۔ ظاہر ہے بیٹی، بیٹے کی مانند نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اس بات کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں (آل عمران، آیت :36) حضرت مریم علیہا السلام بڑی ہوئی تو والدہ نے اپنی منت کے مطابق اسے مسجد اقصیٰ میں اللہ کی عبادت کے لیے وقف کردیا۔ کیونکہ وہاں مردوں سے الگ مقام میں عورتیں اعتکاف، انجیل کی تلاوت اور اللہ کی عبادت میں مصروف رہتی تھیں۔ ایک دن مریم علیہا السلام پردہ میں بیٹھ کر جس طرح اعتکاف کیا جاتا ہے اللہ کے ذکر و فکر میں مشغول تھی کہ اچانک ان کے حجرہ میں نہایت ہی خوبصورت آدمی وارد ہوا۔ یہاں پردہ کا ذکر ہے لیکن تیسرے پارہ میں حضرت مریم علیہا السلام کے حجرہ کا ذکر موجود ہے جس میں بیٹھ کر وہ اللہ کی عبادت کیا کرتی تھیں۔ (آل عمران :37) دونوں آیات کی تطبیق کرتے ہوئے اہل علم نے لکھا ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام ماہواری کی وجہ سے مسجد اقصیٰ سے باہر پردے میں بیٹھی ہوئی تھیں کہ ان کے پاس خوبصورت انسانی شکل میں فرشتہ آیا۔ یہ بات اس لیے دل کو لگتی ہے کہ حدیث میں حائضہ عورت کو مسجد میں آنے سے روکا گیا ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ اس وقت کی شریعت میں بھی یہی اصول ہوگا۔ مسائل: 1۔ انبیاء (علیہ السلام) کی سیرت اور صلحاء کے اچھے واقعات کا ذکر کرنا چاہیے۔ 2۔ حضرت مریم علیہا السلام مسجد اقصیٰ کے مشرقی جانب پردہ میں تشریف فرما تھیں جب ان کے پاس فرشتہ آیا۔ تفسیر بالقرآن: ملائکہ کا انسانی شکل میں آنا : 1۔ ہم نے اس کی طرف (مریم) فرشتہ بھیجا تو وہ ان کے سامنے ٹھیک انسانی شکل اختیار کر گیا۔ (مریم :17) 2۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس ہمارے فرشتے خوشخبری لے کر آئے۔ (ھود :69) 3۔ جب ہمارے فرشتے لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے تو وہ ان کی آمد سے غمناک اور تنگ دل ہوئے۔ (ھود :77) 4۔ جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے تو انھوں نے کہا تم تو نا آشنا سے لوگ ہو۔ (الحجر : 61۔62) 5۔ انھیں ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمانوں کے متعلق خبر دیں جب وہ سلام کہتے ہوئے داخل ہوئے تو ابراہیم نے کہا ہم تم سے خوف محسوس کرتے ہیں۔ (الحجر : 51۔52)