وَأُحِيطَ بِثَمَرِهِ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلَىٰ مَا أَنفَقَ فِيهَا وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا وَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا
(آخر یوں ہوا کہ) باغ کے پکے ہوئے پھل کو عذاب نے آگھیرا اور جو کچھ وہ باغ پر خرچ کرچکا تھا اس پر اپنے دونوں ہاتھ ملتا رہ گیا۔ وہ باغ انہی ٹٹیوں پر گرا پڑا تھا [٤٠]۔ اب وہ کہنے لگا : ’’کاش ! میں نے اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہوتا۔‘‘
فہم القرآن : (آیت 42 سے 44) ربط کلام : باغ کا تباہ ہونا اور آخرت کے منکر کا حسرت وافسوس سے ہاتھ ملنا۔ آخرت کے منکر کا غرور توڑنے اور اسے اپنی قدرت دکھلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے عین اس وقت باغ کو خاکستر بنا دیاجب باغ پھل سے لدا ہوا تھا۔ اس کا مالک تصور نہیں کرسکتا تھا کہ اب یہ باغ اپنے پھل سمیت تباہ ہوجائے گا۔ باغ کے درخت کثرت پھل کی وجہ سے زمین پر جھکے ہوئے تھے جونہی اس کے پھل پکنے کے قریب آئے تو اللہ تعالیٰ کا ایسا غضب نازل ہوا کہ دیکھنے والا یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس قدر شاندار لہلہاتا ہوا باغ کس طرح تباہ ہوگیا ہے۔ باغ کا مالک جب وہاں پہنچا تو جلے ہوئے پودے دیکھ کر لرزتے ہوئے ہونٹوں اور کانپتے ہوئے وجود کے ساتھ انتہائی غم کی حالت میں اپنے ہاتھوں کو پسیجتے ہوئے زاروقطار روتا ہوا حسرت وافسوس کے ساتھ کہتا ہے۔ ہائے کاش ! میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ سمجھتا اس حالت میں کوئی بھی اسکی مدد نہ کرسکا۔ اسے یقین ہوگیا کہ حقیقی اقتدار اور اختیار اللہ ہی کے لیے ہیں جس کی ذات اور فرمان حق ہیں۔ جس طرح اس کی ذات حق ہے اسی طرح ہی قیامت کے بارے میں اس کا فرمان حق ہے وہی بہتر صلہ دینے اور ہر چیز کا اچھا انجام کرنے والاہے۔ جس مشرک کا باغ تباہ کیا گیا اس کے بارے میں یہ وضاحت موجود نہیں کہ وہ کس قسم کا شرک کرتا تھا۔ تاہم سیاق سباق سے معلوم ہوتا ہے۔ اس نے دنیا کے اسباب و وسائل کو سب کچھ سمجھ رکھا تھا۔ جس بناء پر آخرت کا انکار کرتا تھا یہ انداز اور سوچ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کے مترادف ہے۔ (عَنْ بُسْرِ بْنِ أَرْطَاۃَ الْقُرَشِیِّ یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) یَدْعُو اللَّہُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِی الأُمُورِ کُلِّہَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا وَعَذَاب الآخِرَۃِ )[ رواہ احمد] ” بسر بن ارطاۃ قرشی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا۔ اے اللہ! ہمارے تمام معاملات کا انجام بہتر بنا اور ہم کو دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے محفوظ فرما۔“ مسائل: 1۔ نعمت چھن جانے پر انسان حسرت و افسوس کرتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کوئی کسی کا مددگار نہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ بہتر صلہ اور بدلہ دینے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ ہی اجروثواب دینے والا ہے : 1۔ حقیقی اقتدارصرف اللہ کا ہے۔ وہ بہتر صلہ اور اچھا اجر دینے والا ہے۔ (الکھف :44) 2۔ نیکی کو اللہ بڑھا دے گا اور اپنی طرف سے اجر عظیم عطا فرمائے گا۔ (النساء :40) 3۔ ہم انہیں اپنی طرف سے اجر عظیم عطا فرمائیں گے۔ (النساء :67) 4۔ عنقریب اللہ مومنوں کو اجر عظیم سے نوازے گا۔ (النساء :146) 5۔ اگر تم اسکی اطاعت کرو گے اللہ تمہیں اچھا اجر عطا کرے گا۔ (الفتح :16) 6۔ جو ایمان لائے اور اچھے اعمال کیے اللہ انہیں پورے پورے اجر سے نوازے گا اور اپنی طرف سے مزید عطا فرمائے گا۔ (آل عمران : 57۔ النساء :173)