وَلَوْلَا إِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاءَ اللَّهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ ۚ إِن تَرَنِ أَنَا أَقَلَّ مِنكَ مَالًا وَوَلَدًا
اور جب تو اپنے باغ میں داخل ہوا تو یہ کیوں نہ کہا : ماشاء اللہ [٣٩] لاقوہ الا باللہ (وہی ہوتا ہے جو چاہتا ہے اور اللہ کی توفیق کے بغیر کسی کا کچھ زور نہیں) بھلا دیکھو ! اگر میں مال اور اولاد میں تم سے کمتر ہوں
فہم القرآن : (آیت 39 سے 41) ربط کلام : آخرت کے منکر کو اس کے ایمان دار ساتھی کی مزید نصیحتیں۔ صاحب ایمان ساتھی نے آخرت کے منکر کو پانچ نصیحتیں کیں : 1۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا اور اس کے بعد ہر انسان کو اس کے باپ کے نطفے سے پیدا کیا۔ اے میرے ساتھی تجھے بھی ” اللہ“ نے ایک نطفے سے پیدا فرماکر کامل انسان بنایا ہے۔ 2۔ تو مانے یا نہ مانے میر اعقیدہ تو یہ ہے کہ آدمی کو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں سمجھنا چاہیے۔ 3۔ لہلہاتا ہواباغ دیکھ کر غرورو تکبر کرنے کی بجائے تجھے ” ماشاء اللہ، لاقوۃ الا باللہ“ کہنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس کوئی چیز پیدا کرنے اور دینے کی طاقت نہیں ہے۔ وہی کچھ ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے۔ 4۔ تو مجھے غریب اور حقیر سمجھتا ہے کسی کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے ہوسکتا ہے میر ارب مجھے تیرے باغ سے بہتر باغ عنایت فرمادے۔ 5۔ یہ بھی ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ آسمان سے کوئی آفت بھیج دے کر تیرا باغ نیست و نابود کردے یا اس میں جاری چشمے کا پانی اس قدر نیچے لے جائے کہ تو اسے کسی طرح بھی حاصل نہ کرسکے۔ ” فرما دیجیے کہ دیکھو اگر تمہار ا پانی خشک ہوجائے تو کون ہے جو تمہارے لیے شیریں پانی کا چشمہ بہا لائے۔“ (الملک :30) ( وَاللّٰہِ مَا رَأَیْتُ کَالْیَوْمُ وَلَاجِلْدَ مَخْبَأَۃٍ قَالَ فَلَبِطَ سَہْلٌ فَأُتِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) فَقِیْلَ لَہٗ یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ہَلْ لَکَ فِیْ سَہْلِ بْنِ حَنَیْفٍ ؟ وَاللّٰہِ مَا یَرْفَعُ رَأْ سَہٗ فَقَالَ ہَلْ تَتَّہِمُوْنَ لَہٗ أَحَدًا ؟ فَقَا لُوْا نَتَّہِمُ عَامِرَ بْنَ رَبِیْعَۃَ قَالَ فَدَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) عَامِرًا فَتَغَلَّظَ عَلَیْہِ وَقَالَ عَلاَمَ یَقْتُلُ أَحَدُکُمْ أَخَاہُ ؟ أَلاَ بَرَکْتَ ؟ اِغْتَسِلْ لَہٗ فَغَسَلَ لَہٗ عَامِرٌ وَجَہْہٗ وَیَدَیْہِ وَمِرْفَقَیْہِ وَرُکْبَتَیْہِ وَأَطْرَافُ رِجْلَیْہِ وَدَاخِلۃٌ إِزَارُہٗ فِیْ قَدَحٍ ثُمَّ صُبَّ عَلَیْہِ فَرَاحَ مَعَ النَّاسِ لَیْسَ لَہٗ بَأْسٌ) [ رواہ فی شرح السنۃ ورواہ مالک ] ” حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف کہتے ہیں کہ عامر بن ربیعہ نے سہل بن حنیف کو غسل کرتے ہوئے دیکھا۔ اس نے کہا۔ اللہ کی قسم! میں نے آج تک اس جیسا آدمی نہیں دیکھا اور نہ ایسا خوبصورت جسم دیکھا ہے۔ راوی کہتے ہیں اس بات پر سہل زمین پر گر پڑے۔ سہل کو رسول اللہ (ﷺ) کے پاس لایا گیا۔ لانے والوں نے عرض کی اے اللہ کے رسول ! سہل کو دیکھیں اللہ کی قسم ! یہ سر نہیں اٹھا سکتا۔ آپ نے پوچھا کیا تم کسی کو الزام دیتے ہو؟ انہوں نے کہا ہم عامر بن ربیعہ پر الزام لگاتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے عامر بن ربیعہ کو بلایا اور ڈانٹ کر فرمایا۔ کیوں تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو قتل کرتا ہے ؟ تم نے اس کے لیے برکت کی دعا کیوں نہ کی ؟ اس کے لیے غسل کرو۔ عامر نے اپنا چہرہ، ہاتھ، کہنیاں، گھٹنے اور پاؤں دھوئے اور اپنی چادر کو برتن میں ڈالا۔ وہ پانی سہل پہ انڈیلا گیا جس سے وہ بالکل ٹھیک ہوگئے جیسے اسے کوئی تکلیف ہی نہ ہو۔“ مسائل: 1۔ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشاء سے ہوتا ہے۔ 2۔ انسان کو اللہ تعالیٰ سے بہتر امید رکھنی چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے لہلہاتے باغات کو چٹیل مید ان بنا دے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو پانی کو نیچے لے جائے۔