قَالَ لَهُ صَاحِبُهُ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَكَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلًا
اس کے ساتھی نے گفتگو کے دوران اسے کہا : ’’ کیا تو اس ذات کا [٣٧] انکار کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے، پھر نطفہ سے پیدا کیا، پھر تجھے پورا آدمی بنا دیا‘‘
فہم القرآن : (آیت 37 سے 38) ربط کلام : آخرت کے منکر کو اس کے مخلص ساتھی کی نصیحت۔ آخرت کے منکر کو اس کے مخلص ساتھی نے سمجھایا کہ کیا تو اس ذات حق کا انکار کرتا ہے۔ جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا۔ پھر ایک نطفے سے کامل انسان بنایا۔ یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا اور اس کے بعد تمام انسان نطفہ سے پیدا کیے جاتے ہیں۔ جب آخرت کا منکر ہر دلیل سے انکار کرتارہا تو اس کے مواحد ساتھی نے اسے کہا کہ اگر توحق تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تو تیری مرضی۔ لیکن میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ ” اللہ“ ہی میرا رب ہے۔ میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو کسی اعتبار سے شریک نہیں سمجھتا۔ یا درہے کہ رب کا معنی ہے ” خالق، مالک، بادشاہ“ اور ہر چیز عطا فرمانے والا ہے۔ یہاں آخرت کے منکر کے لیے کافر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کیونکہ جو شخص آخرت کا انکار کرتا ہے۔ وہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے حاکم اور عادل ہونے اور اس کی جزا وسزا کا انکار کرتا ہے۔ آخرت کا انکار کرنا دین کے تیسرے بنیادی رکن کا انکار کرنا ہے۔ اس لیے جو شخص آخرت کا منکر ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا بھی منکر ہے۔ آخرت کا منکر اجر و ثواب سے محروم رہتا ہے : (عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُول اللّٰہِ ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِینَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہُ قَالَ لاَ یَنْفَعُہُ إِنَّہُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِّ اغْفِرْ لِی خَطِیئَتِی یَوْمَ الدِّینِ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب الدَّلِیلِ عَلَی أَنَّ مَنْ مَاتَ عَلَی الْکُفْرِ لاَ یَنْفَعُہُ عَمَلٌ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے رسول اللہ سے پوچھا اے اللہ کے رسول! ابن جدعان زمانہ جاہلیت میں صلہ رحمی کرتا اور مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا۔ کیا یہ عمل اس کے لیے سود مند ہوگا۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا ان اعمال کا فائدہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ وہ آخرت پر یقین نہیں رکھتا تھا۔“ آپ (ﷺ) کی وصیت : (عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ قَالَ أَوْصَانِی خَلِیلِی (ﷺ) أَنْ لاَ تُشْرِکْ باللّٰہِ شَیْئًا وَإِنْ قُطِّعْتَ وَحُرِّقْتَ وَلاَ تَتْرُکْ صَلاَۃً مَکْتُوبَۃً مُتَعَمِّدًا فَمَنْ تَرَکَہَا مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِءَتْ مِنْہُ الذِّمَّۃُ وَلاَ تَشْرَبِ الْخَمْرَ فَإِنَّہَا مِفْتَاحُ کُلِّ شَرٍّ )[ رواہ ابن ماجۃ : باب الصَّبْرِ عَلَی الْبَلاَءِ] ” حضرت ابودرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل (ﷺ) نے وصیت کی کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا اگرچہ تیرے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جائیں اور تجھے آگ میں جلا دیا جائے۔ فرض نماز کو جان بوجھ کر نہیں چھوڑنا جس نے اس کو جان بوجھ کر چھوڑ دیا وہ مجھ سے بری الذمہ ہوگیا اور شراب نہیں پینی اس لیے کہ یہ ہر برائی کی چابی ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پہلے مٹی سے پیدا کیا۔ 2۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کا پروردگار ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: تخلیق انسانی کے مختلف مراحل : 1۔ کیا تو اس ذات کا کفر کرتا ہے جس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے تجھے آدمی بنایا۔ (الکھف :37) 2۔ انسان کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا۔ (آل عمران :59) 3۔ حوا آدم سے پید اہوئیں۔ (النساء :1) 4۔ ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (الحجر :26) 5۔ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے اسے نطفہ بنایا۔ (المومنون : 12۔13) 6۔ ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا۔ (الدھر :2)