فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَىٰ آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَٰذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا
آپ شائد ان کافروں کے پیچھے اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں گے اس غم [٦] سے کہ یہ لوگ اس قرآن پر ایمان کیوں نہیں لاتے۔
فہم القرآن : (آیت 6 سے 8) ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے بارے میں لوگوں کی ہرزہ سرائی اور کفر و شرک پر قائم رہنے کی وجہ سے نبی اکرم (ﷺ) کا غم زدہ ہونا۔ رسول کریم (ﷺ) مشرکین کو دن رات بڑی دلسوزی اور محنت کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کرتے مگر ان کی حالت یہ تھی کہ وہ آپ کی جان کے دشمن ہونے کے ساتھ کفر و شرک میں آگے ہی آگے بڑھتے جارہے تھے۔ اس صورت حال پر آپ اس قدر دل گرفتہ ہوجاتے کہ قریب تھا کہ آپ کو کوئی جسمانی عارضہ لاحق ہوجائے۔ اس حالت میں اللہ تعالیٰ آپ کو اطمینان دلاتے کہ اے نبی ! اگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات اور صفات کے حوالے سے ایک ماننے اور اس کے ارشادات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تو کیا آپ ان پر اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گے۔ کبھی آپ کی ان الفاظ کے ساتھ ڈھارس بندھائی جاتی کہ آپ اللہ کے رسول ہیں آپ کو ان پر کو توال بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ لہٰذا آپ انہیں نصیحت کرتے جائیں۔ آپ کو نصیحت کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (الغاشیہ : 21، 22) آپ کو ان الفاظ کے ساتھ بھی تسلی دی گئی : ” کچھ لوگوں پر آپ جس قدر چاہیں محنت کرلیں وہ کبھی ایمان نہیں لائیں گے۔ کفر و شرک اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑچکا ہے۔ ان کے لیے بڑاعذاب تیار کیا گیا ہے۔“ (البقرۃ: 6۔7) سورۃ کہف میں آپ کو اطمینان دلانے کے ساتھ لوگوں کے کفرو شرک کی یہ وجہ بیان کی گئی ہے کہ یہ دنیاکی زیب وزینت میں محو ہو کر رہ گئے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر جو آسائش اور زیب وزینت کا سامان پیدا کیا ہے۔ وہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ لوگوں کی آزمائش کرتا ہے کہ کون دنیاکی آلائش سے بچ کر اچھے اعمال کرتا ہے۔ جہاں تک دنیا اور زمین کی زیب وزینت کا تعلق ہے بالآخر اللہ تعالیٰ سب کچھ نیست ونابود کرکے زمین کو چٹیل مید ان بنا دے گا۔ اگر کوئی چیز باقی رہنی ہے تو وہ انسان کے اچھے اور برے اعمال ہیں۔ ہر کسی کو اس کو اس کے اچھے اور برے اعمال کے مطابق جزا اور سزا دی جائے گی۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) لَوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّہِ جَنَاحَ بَعُوضَۃٍ مَا سَقٰی کَافِرًا مِنْہَا شَرْبَۃَ مَاءٍ )[ رواہ الترمذی : کتاب الزہد وہو حدیث صحیح] ” حضرت سہل بن سعد کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اگر دنیا کی وقعت اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر ہوتی تو وہ کافر کو ایک گھونٹ پانی کا بھی نہ دیتا۔“ (یعنی آخرت کے مقابلے میں دنیا کی کچھ حقیقت نہیں ہے۔ ) مسائل: 1۔ لوگوں کی آزمائش کے لیے زمین کو باعث رونق بنایا گیا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون اچھے اعمال کرتا ہے۔ 3۔ قیامت کے دن زمین کو چٹیل مید ان بنادیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن: دنیاکی حقیقت : 1۔ جو کچھ زمین میں ہے وہ باعث آزمائش ہے۔ (الکہف :7) 2۔ دنیا کی زندگی کا سامان آخرت کے مقابلے میں قلیل اور حقیر ہے۔ (التوبۃ:38) 3۔ دنیا کی زندگی صرف کھیل کود ہے۔ (العنکبوت :64) 4۔ دنیاکی زندگی دھوکے کا سامان ہے۔ (آل عمران :185) 5۔ لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے، نہیں ہے دنیا کی زندگی مگر معمولی فائدہ۔ (الرعد :26) 6۔ دنیا کی زندگی کھیل تماشا ہے۔ (الحدید :20) 7۔ دنیا کی زندگی کی مثال آسمان سے نازل ہونے والی کی طرح ہے۔ (یونس :24)