قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَٰنَ ۖ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا
آپ ان سے کہئے کہ : اللہ (کہہ کر) پکارو یا رحمٰن [١٢٨] (کہہ کر) جو نام بھی تم پکارو گے اس کے سب نام ہی اچھے ہیں۔ اور آپ اپنی نماز نہ زیادہ بلند آواز [١٢٩] سے پڑھئے نہ بالکل پست آواز سے بلکہ ان کے درمیان اوسط درجہ کا لہجہ اختیار کیجئے۔
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی سہولت کے لیے تھوڑا تھوڑا کر کے قرآن مجید نازل کیا تاکہ اس پر ایمان لانے والوں کو اس پر عمل کرنا آسان ہو۔ لیکن منکرین قرآن نے اس سہولت کو عیب بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کیا اس کے ساتھ انھوں نے ” الرحمن“ کے نام کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ جس کا جواب دیا گیا ہے۔ مکہ کے لوگ اپنی دعاؤں میں ” اللہ“ کا نام استعمال کرتے تھے۔ مدینہ کے یہودی ” اللہ“ کی بجائے ” الرحمن“ کے نام سے رب تعالیٰ کا ذکر کرتے اور اپنی دعاؤں میں الرحمن کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ رسول کریم نے اسمِ ” اللہ“ کے ساتھ جب ” الرحمن“ کا لفظ استعمال کرنا شروع کیا تو مکہ کے مشرکوں کو آپ کے خلاف پروپیگنڈا کا بہانہ ہاتھ آیا۔ انہوں نے یہ الزام لگایا کہ ہمارے ساتھ ایک الٰہ پر صبح وشام تکرار کرتا ہے۔ اس کا اپنا یہ حال ہے کہ ” اللہ“ کے ساتھ ” الرحمن“ کو شریک بنا تا ہے۔ اس پر انہیں یہ جواب دیا گیا کہ لوگو ! اپنے رب کو ” اللہ“ کے نام سے پکارو یا اس کو ” الرحمن“ کے نام سے یاد کرو۔ اللہ کے جس نام سے پکارو اس کے تمام نام ہی بہترین ہیں۔ کیونکہ سورۃ الاعراف آیت ١٨٠ میں یہ تعلیم دی گئی کہ اللہ کے سب نام بہترین ہیں لہٰذا جس نام کے ساتھ چاہواسے پکارو۔ لیکن اس کے اسماء میں کسی قسم کا الحادنہ کرو۔ جو لوگ ایساکریں گے انہیں اپنے اعمال کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ جہاں تک اللہ کے اسمائے گرامی کا تعلق ہے۔ اس میں اسم جنس ” اللہ“ ہے۔ باقی اسمائے گرامی اللہ تعالیٰ کے وصفی یعنی تعریفی نام ہیں۔ ایک روایت کے مطابق ننانوے نام ہیں جبکہ دوسری روایات کو جمع کیا جائے توایک سو سے زیادہ بنتے ہیں۔ قرآن مجیدکی تلاوت کا عام اصول : (عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) خَرَجَ لَیْلَۃً فَإِذَا ہُوَ بِأَبِی بَکْرٍ (رض) یُصَلِّی یَخْفِضُ مِنْ صَوْتِہِ قَالَ وَمَرَّ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَہُوَ یُصَلِّی رَافِعًا صَوْتَہُ قَالَ فَلَمَّا اجْتَمَعَا عِنْدَ النَّبِیِّ (ﷺ) قَال النَّبِیُّ (ﷺ) یَا أَبَا بَکْرٍ مَرَرْتُ بِکَ وَأَنْتَ تُصَلِّی تَخْفِضُ صَوْتَکَ قَالَ قَدْ أَسْمَعْتُ مَنْ نَاجَیْتُ یَا رَسُول اللَّہِ قَالَ وَقَالَ لِعُمَرَ مَرَرْتُ بِکَ وَأَنْتَ تُصَلِّی رَافِعًا صَوْتَکَ قَالَ فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ أُوقِظُ الْوَسْنَانَ وَأَطْرُدُ الشَّیْطَانَ زَادَ الْحَسَنُ فِی حَدِیثِہِ فَقَال النَّبِیُّ (ﷺ) یَا أَبَا بَکْرٍ ارْفَعْ مِنْ صَوْتِکَ شَیْئًا وَقَالَ لِعُمَرَ اخْفِضْ مِنْ صَوْتِکَ شَیْئًا )[ رواہ البخاری : باب فی الرفع الصوت بالقراء ۃ] ” حضرت ابو قتادۃ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک رات نبی کریم (ﷺ) باہر نکلے۔ ابو بکر (رض) کو دھیمی آواز میں نماز پڑھتے ہوئے پایا پھر آپ (ﷺ) کا گزر عمر بن خطاب (رض) کے پاس سے ہوا وہ بلند آواز میں قرأت کر رہے تھے، جب دونوں نبی کریم (ﷺ) کے پاس حاضر ہوئے تو آپ (ﷺ) نے ابو بکر (رض) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ابوبکر! میں رات کو آپ کے پاس سے گزراتھا آپ بالکل ہلکی آواز میں قرأت کر رہے تھے ابو بکر نے عرض کی اللہ کے رسول (ﷺ) ! میں اس لیے آہستہ آواز میں قرأت کر رہا تھا تاکہ جس سے میں سرگوشی کر رہا ہوں اسے سنا سکوں۔ آپ (ﷺ) نے حضرت عمر (رض) سے فرمایا میں آپ کے پاس سے گزرا آپ اونچی آواز میں قرأت کر رہے تھے انہوں نے جواب دیا اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! میں اس لیے بلند آوازسے قرأت کررہا تھا تاکہ میں سونے والوں کو جگا سکوں اور شیطان کو بھگا سکوں۔ حسن کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے ابو بکر سے فرمایا کہ اپنی آواز کو تھوڑا سا بلند کرو اور عمر (رض) سے کہا اپنی آواز کو تھوڑا سا دھیما رکھو۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کو اس کے ناموں میں سے جس نام کے ساتھ چاہوپکارو۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے اچھے اور بہترین نام ہیں۔ 3۔ عبادت میں میانہ روی ہونی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: میانہ روی اختیار کرنی چاہیے : 1۔ نماز بلند آواز سے نہ پڑھو نہ آہستہ بلکہ درمیانہ انداز اختیار کرو۔ (بنی اسرائیل :110) 2۔ رحمٰن کے بندے جب خرچ کرتے ہیں۔ نہ اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی۔ بلکہ درمیانی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ (الفرقان :67) 3۔ چال میں اعتدال اور آواز کو پست رکھو۔ (لقمان :19) 4۔ کچھ لوگ اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ہیں اور کچھ میانہ رو ہیں۔ (فاطر :32) 5۔ لوگوں میں سے کچھ میانہ رو ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جن کے اعمال برے ہیں۔ (المائدۃ:66)