سورة الإسراء - آیت 85

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۖ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ آپ ان سے کہئے کہ ''روح میرے پروردگار کا حکم [١٠٦] ہے اور تمہیں تو بس تھوڑا سا علم دیا گیا ہے''

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : ربط کلام : اس سے پہلے قرآن مجید کے فضائل اور اوصاف کا ذکر ہوا۔ اب اسی کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ اس آیت میں روح کے بارے میں سوال کیا گیا ہے کہ روح کیا چیز ہے ؟ روح کے بارے میں اہل علم کی دو آراء ہیں۔ ایک جماعت کا کہنا ہے کہ یہاں روح سے مراد نفس انسانی ہے۔ جس کے بارے میں صرف یہ جواب دیا گیا ہے۔ کہ اے پیغمبر ! لوگ آپ سے استفسار کرتے ہیں کہ ” اَلرُّوْحُ“ کیا چیز ہے ؟ انہیں فرمائیں کہ ” روح“ اللہ کا حکم ہے۔ جب چاہتا ہے اپنا حکم واپس لیلیتا ہے۔ روح نکلنے سے انسان کا جسد خاکی ایک ڈھا نچے کے سوا کچھ نہیں رہتا۔ جسم بالآخر مٹی کے ساتھ مٹی ہوجاتا ہے۔ اہل علم کی دوسری جماعت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہاں روح سے مراد نفس انسانی نہیں بلکہ اس سے مراد قرآن مجید ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں نفس انسانی کے لیے اکثر مقامات پر ” روح“ کی بجائے ” نفس“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس طرح کہ انسان کی موت کا ذکر کرتے ہوئے اس کی روح کے بارے میں قرآن مجیدبار بار نفس کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ ﴿کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُالْمَوْت﴾[ اٰل عمران :185] بے شک قرآن مجید میں ” روح“ کے لیے ” نفس“ کا لفظ کئی بار استعمال ہوا ہے۔ لیکن اس کا یہ ہرگز معنیٰ نہیں کہ قرآن میں ” نفس“ کے لیے روح کا لفظ استعمال ہی نہیں ہوا۔ قرآن مجید نے آدم کی تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے یہ حقیقت واضح کی ہے۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا تو فرشتوں کو حکم دیا : ﴿فَإِذَا سَوَّیْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُوحِیْ فَقَعُوْا لَہُ سَاجِدِیْنَ [ صٓ:72] ” جب میں اس میں اپنی روح پھونک لوں تو آدم کے سامنے سجدہ کرنا“ یہاں الروح سے مراد انسان کا نفس ہے۔ لہٰذا جن اہل علم نے ” روح“ سے مراد صرف ” نفس انسانی“ لیا ہے۔ ان کا موقف مستند دکھائی نہیں دیتا۔ لہٰذایہاں روح سے مراد ” روح انسانی“ ہے۔ کیونکہ اگر سوال قرآن مجید کے بارے میں ہوتا تویقیناً سوال کرنے والے قرآن مجید کا نام لیتے۔ اگر یہ سوال جبریل امین کے بارے میں تھا تو نبی (ﷺ) کو خاموش رہنے کی ضرورت نہ تھی۔ کیونکہ دن رات آپ کے پاس تشریف لاتے اور آپ کو قرآن کی نئی وحی سے آگاہ فرماتے تھے۔ اس لیے یہ سوال ” انسانی روح“ کے بارے میں کیا گیا۔ جس کی تائید سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت سے ہوتی ہے۔ جس میں آپ کے چند لمحے خاموش رہنے کا ذکر موجود ہے۔ ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نبی کریم (ﷺ) کے ساتھ ایک کھیت میں تھا اور آپ لکڑی کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ اتنے میں یہودی گزرے۔ وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے۔ نبی سے روح کے بارے میں سوال کرو۔ بعض نے کہا تمہاری اس کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ بعض نے کہا وہ تمہیں ایسی بات نہ کہہ دے جو تمہیں بری لگے۔ انہوں نے کہا سوال کرو۔ پھر انہوں نے آپ (ﷺ) سے روح کے بارے میں سوال کیا۔ آپ کچھ دیر ٹھہرے رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔ میں جان گیا کہ آپ کی طرف وحی کی جارہی ہے۔ میں اپنی جگہ پر کھڑا رہا۔ جب وحی کا نزول ختم ہو اتو آپ نے یہ آیت تلاوت کی ﴿وَیَسْأَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّیْ وَمَا أُوتِیْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِیْلاً [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر] اس فرمان میں انسان کو یہ تعلیم دی گئی ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیزوں کی حقیقت کو کما حقہ جاننا انسان کے بس کا روگ نہیں۔ جہاں انسان کی عقل نہ پہنچ سکتی ہو۔ اس حقیقت کو ٹھکرانے کی بجائے انسان کو اللہ تعالیٰ کے فرمان پر اکتفا کرنا چاہیے۔ یہی وہ بنیادی اصول ہے جو ایک مسلمان اور بےدین سائنسدانوں کے درمیان امتیاز قائم کرتا ہے۔ بےدین سا ئنسدان کو جب کوئی چیز سمجھ نہ آئے تو وہ اس کے وجود کا سرے سے ہی انکار کردیتا ہے۔ اسی بنیاد پر بے شمار سائنسدان ناصرف اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ چیزوں کا انکار کرتے ہیں۔ بلکہ سرے سے اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار کردیتے ہیں۔ اس انکار کی وجہ سے ان کا عقیدہ ہے کہ مادہ یعنی ایٹم میں خود بخود تبدیلیاں رونما ہونے کی وجہ سے چیزیں اپنے آپ بنتی اور ختم ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بے شک انسان کتنی ترقی کرجائے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ چیزوں کا پوری طرح احاطہ نہیں کرسکتا۔ کیونکہ اس آیت میں دو ٹوک اند از میں ارشاد ہوا ہے۔ کہ لوگو! اپنے علم پر اترانے کی کوشش نہ کرو۔ کیونکہ تمہیں بہت کم علم دیا گیا ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کا نام روح ہے۔ 2۔ لوگوں کو بہت تھوڑا علم عطا کیا گیا ہے۔