سورة الإسراء - آیت 61

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ قَالَ أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور (یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ : ’’آدم کو سجدہ کرو‘‘ تو ابلیس کے سوا سب فرشتوں نے اسے سجدہ کیا۔ کہنے لگا : کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے؟

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 61 سے 62) ربط کلام : کفار کی قرآن مجید سے عداوت اور بغاوت شیطان کی پیروی کی وجہ سے ہے۔ شیطان اپنے رب کا سب سے بڑاباغی اور نافرمان ہے۔ جس کی واضح اور پہلی دلیل حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم سے پہلے ملائکہ کے سامنے اعلان فرمایا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ ملائکہ نے عرض کی کیا آپ زمین میں اس شخص کو خلیفہ بنائیں گے جو اس میں فساد کرے گا اور خون بہائے گا؟ ہم تیری حمد وثناء کے ساتھ تسبیح وتقدیس بیان کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرما کر تمام چیزوں کے نام بتلائے پھر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے کرکے ارشاد فرمایا۔ اگر تم سچے ہو تو مجھے ان چیزوں کے نام بتلاؤ۔ ملائکہ نے عرض کی اے اللہ ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو اتنا ہی علم ہے جتنا آپ نے ہمیں سکھایا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں تو ہر بات کو جاننے والا ہے اور تیرے ہر حکم میں حکمت پائی جاتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو حکم فرمایا کہ تم ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ جب آدم (علیہ السلام) نے ان چیزوں کے نام بتا دئیے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ملائکہ سے فرمایا۔ کیا میں نے تمہیں نہیں فرمایا تھا کہ میں ہی زمین و آسمانوں کے غیب کو جانتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے جو تم ظاہر کررہے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔ اس کے بعد ملائکہ کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو۔ ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا۔ ابلیس نے تکبر اور انکار کیا۔ وہ انکار کرنے والوں میں ہوا۔ (البقرۃ: 30تا34) ابلیس نے کفر وتکبر کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ کیا میں اس شخص کو سجدہ کروں؟ جس کو تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ تو نے اس کو مجھ پر فضلیت دی ہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر کہنے لگا کہ میں آدم سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا ہے۔ (بنی اسرائیل :61) اس کے بعد ابلیس اللہ تعالیٰ کے سامنے گستاخی کرتے ہوئے یہ بھی کہتا ہے کہ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ میں آدم کو سجدہ کروں۔ تو نے آدم کو سیاہ اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ملائکہ کی طرح ابلیس بھی اپنے رب کے سامنے معذرت خواہ ہوتا۔ لیکن وہ حسدوبغض کی وجہ سے بغاوت پہ بغاوت کرتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ اس نے یہ جسارت بھی کرڈالی کہ اگر مجھے قیامت تک مہلت دے تو میں چند لوگوں کو چھوڑ کر آدم کی تمام اولاد کو گمراہ کردوں گا۔ ابلیس کا انکار تکبر اور حسدکی وجہ سے تھا۔ تکبر وہ بری چیز ہے کہ جس سے انسان کے تمام اعمال غارت ہوجاتے ہیں اور انسان دنیا میں ہی ذلت ورسوائی سے دوچار ہوجاتا ہے۔۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو آدم (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ 2۔ شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کوتکبر کی بناء پر سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ 3۔ شیطان نے قیامت تک اللہ تعالیٰ سے مہلت مانگی، جواسے دے دی گئی۔ 4۔ شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد کو گمراہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شیطان کی گستاخیاں : 1۔ جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس اس سے انکاری ہوا۔ (بنی اسرائیل :61) 2۔ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے انکار کیا۔ (الحجر : 30۔31) 3۔ کہنے لگا کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ (بنی اسرائیل :61) 4۔ شیطان نے کہا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے پیدا کیا۔ (الاعراف :12) 5۔ اگر تو مجھے قیامت تک مہلت دے تو میں تھوڑے لوگوں کے علاوہ اس کی اولاد کی جڑ کاٹتا رہوں گا۔ (بنی اسرائیل :62) 6۔ شیطان نے کہا تو نے مجھے اس کی وجہ سے گمراہ کیا ہے میں بھی ان کے راستے میں بیٹھوں گا۔ (الاعراف :16)