سورة البقرة - آیت 13

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ جیسے اور لوگ [١٩] ایمان لائے ہیں، تو کہتے ہیں کیا ’’ہم ایسے ایمان لائیں، جیسے احمق لوگ ایمان لائے ہیں؟‘‘ خوب سن لو!(حقیقتاً) یہی لوگ احمق ہیں مگر وہ (یہ بات) جانتے [٢٠] نہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : منافق دوغلا، جھوٹا اور فسادی ہی نہیں ہوتا بلکہ اپنی منافقت کے کھوٹ کی وجہ سے مخلص مسلمانوں کو بیوقوف کہتا اور سمجھتا ہے۔ منافق ابن الوقت اور مفاد پرست ہوتا ہے۔ اسی لیے مخلص، ایثار پیشہ اور با اصول شخص کو پسند نہیں کرتا۔ صحابہ کرام {رض}ایثار کے پیکر اور قربانی کے خوگر تھے۔ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی محبت اور اسلام کی سر بلندی کی خاطر ہر چیز قربان کرنے کی بے مثال اور لا زوال مثالیں قائم کیں تھیں۔ منافقین ایسے مخلص حضرات کو کس طرح پسند کرسکتے تھے؟ ربِّ کریم نے جب منافقوں کو حکم دیا کہ تم بھی نبی {ﷺ}کے اصحاب کی طرح مخلصانہ ایمان اور فدا کاری کا رویہ اختیار کرو۔ منافقین نے تسلیم و رضا کا روّیہ اپنانے کی بجائے کہا : کیا ہم ان بے وقوفوں کی طرح کاروبار تباہ کرلیں اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیں؟ یہ تو سراسر حماقت کا راستہ ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ اپنے خالق و مالک کا فرمان تسلیم کرنا اور اس کے حکم پر سب کچھ قربان کردینا بے وقوفی نہیں۔ حماقت اور بے وقوفی تو یہ ہے کہ آدمی اپنے رب کا نافرمان اور اس کے ساتھ عدم اخلاص کا رویّہ اور فانی دنیا کے لیے ہمیشہ کی زندگی کو برباد کرلے۔ اس فرمان میں رہتی دنیا تک صحابہ کرام {رض}کے ایمان کو جہان والوں کے لیے معیار قرار دیتے ہوئے صحابہ کو برا کہنے والوں کو احمق، منافق اور علم و آگہی سے نا بلد قرار دیا گیا ہے۔ مسائل: 1-منافق صحابہ کرام {رض}کو بیوقوف سمجھتے ہیں۔ 2- حقیقتاً منافق بے وقوف ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : بیوقوف کون؟ 1- ملت ابراہیم سے اعراض کرنے والابیوقوف ہے۔ (البقرۃ:130) 2- صحابہ کو برا کہنے والابیوقوف ہے۔ (البقرۃ:12) 3- حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقہ سے انحراف کرنے والابیوقوف ہے۔ (البقرۃ:13) 4- قبلہ پر اعتراض کرنے والے بیوقوف ہے۔ (البقرۃ:142)