سورة الإسراء - آیت 28

وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِّن رَّبِّكَ تَرْجُوهَا فَقُل لَّهُمْ قَوْلًا مَّيْسُورًا

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

اور اگر تم ان (رشتہ داروں، مسکینوں [٣٣] اور مسافروں) سے اس بنا پر اعراض کرو کہ ( ابھی تمہارے پاس انھیں دینے کو کچھ نہیں لیکن) تم اپنے پروردگار کی رحمت سے ایسی توقع ضرور رکھتے ہو اور اس کی تلاش میں ہو تو انھیں نرمی سے جواب دے دو۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : (آیت 28 سے 29) ربط کلام : فضول خرچی سے روکنے کے ساتھ بخیلی اور کنجوسی سے بھی منع کیا گیا ہے۔ دین اسلام کی یہ بھی خوبی ہے کہ دین عبادات اور معاملات دونوں میں اعتدال کا حکم دیتا ہے۔ اس لیے حکم ہوا ہے کہ فضول خرچی سے بچنے کے ساتھ بخیلی سے بھی مکمل اجتناب کیا جائے۔ مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر رسول مکرم (ﷺ) کو مخاطب کیا گیا ہے کہ اپنا ہاتھ نہ گردن کے ساتھ لٹکائیں اور نہ اسے کلی طور پر کھول دیں۔ اگر آپ اپنا ہاتھ پورے کا پورا کھول دیں گے تو ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ جائیں گے۔ اس کے ساتھ یہ رہنمائی بھی کی گئی کہ اگر آپ کے پاس کسی کو دینے کے لیے کوئی چیز نہ ہو۔ لیکن آپ کو اپنے رب کی طرف سے کوئی چیز ملنے کی توقع ہو تو سائل کو خالی ہاتھ واپس لٹاتے ہوئے نرمی کے ساتھ جواب دیں۔ اعتدال کے ساتھ خرچ کرنے کے بارے میں آپ (ﷺ) فرمایا کرتے تھے کہ جس نے اخراجات میں میانہ روی اختیار کی وہ کبھی کنگال نہیں ہوگا۔ کچھ نہ ہونے کی صورت میں آپ (ﷺ) کی تعلیم یہ ہے کہ سائل کو ڈانٹنے کی بجائے اسے نرمی اور خوش اسلوبی کے ساتھ جواب دینا چاہیے۔ قرآن مجید نے عباد الرحمن کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ان کی یہ خوبی بیان کی ہے۔ ” کہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو اس میں اسراف اور بخل نہیں پایا جاتا۔ اللہ کے بندے خرچ کرتے ہوئے اعتدال کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔“ (الفرقان :67) (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَسْعُودٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ () مَا عَالَ مَنِ اقْتَصَدَ )[ رواہ أحمد ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جس شخص نے میانہ روی اختیار کی وہ کنگال نہیں ہوگا“ (عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی (رض) عَنِ النَّبِیِّ () أَنَّہٗ کَانَ اِذَا أَتَاہ السَّائِلُ أَوْصَاحِبُ الْحَاجَۃِ قَالَ اشْفَعُوْا فَلْتُوْجَرُوْا وَیَقْضِیْ اللَّہُ عَلَی لِسَانِ نَبِیِّہِ () مَا شَاءَ) [ رواہ البخاری : باب التَّحْرِیضِ عَلَی الصَّدَقَۃِ وَالشَّفَاعَۃِ فیہَا ] ” حضرت ابو موسیٰ (رض) ہی نبی معظم (ﷺ) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ جب آپ کے پاس سائل یا ضرورت مند آتا تو آپ فرماتے‘ اس کی سفارش کرو تمہیں ثواب ملے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول (ﷺ) کی زبان پر جو چاہتا ہے کہلواتا ہے۔“ مسائل: 1۔ سائل کے ساتھ نرمی سیبات کرنی چاہیے۔ 2۔ فضول خرچی نہیں کرنی چاہیے۔ 3۔ بخل نہیں کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: دین اسلام کسی معاملہ میں غلو اور افراط وتفریط پسند نہیں کرتا : 1۔ نہ تو اپنے ہاتھ گردن ہی سے باندھ لے اور نہ اسے بالکل کھول دے۔ (بنی اسرائیل :28) 2۔ وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی کرتے ہیں۔ (الفرقان :67) 3۔ اپنی چال میں اعتدال اور اپنی آواز کو پست رکھیں۔ (لقمان :19) 4۔ کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ہیں اور کچھ میانہ روہیں۔ (فاطر :32) 5۔ ان میں سے درمیانی امت ہے اور زیادہ ان میں سے برے اعمال کرنے والے ہیں۔ (المائدۃ:66) 6۔ نماز نہ بلند آواز سے پڑھو نہ آہستہ بلکہ درمیانہ انداز اختیار کرو۔ (بنی اسرائیل :110)