سورة الإسراء - آیت 16

وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرلیتے ہیں تو وہاں کے عیش پرستوں کو حکم دیتے ہیں تو وہ بدکرداریاں [١٦] کرنے لگتے ہیں پھر اس بستی پر عذاب کی بات صادق آجاتی ہے تو ہم اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 16 سے 17) ربط کلام : اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اس وقت تک تباہ نہیں کرتا جب تک ان تک ہدایت کا پیغام نہ پہنچ جائے مگر ہدایت کے راستہ میں معاشرے کے بڑے لوگ اپنی چوہدراہٹ اور مفاد کی خاطر رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ یہی لوگ ملک وملت کے بگاڑ اور تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ قرآن مجید نے اقوام عالم کی تباہی کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح کی ہے کہ تباہ ہونے والی اقوام میں اکثر قومیں مال و وسائل کے حوالے سے انتہائی ترقی یافتہ تھیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جب ان کو عذاب میں گرفتار کیا تو دنیا کے وسائل و اسباب، اقتدار اور اختیار ان کے کچھ کام نہ آئے۔ اللہ کے عذاب نے انہیں اس طرح نیست و نابود کردیا کہ وہ دھرتی اور تاریخ کے اوراق میں نشان عبرت بن کر رہ گئے۔ ان قوموں کی تباہی میں جن لوگوں نے سب سے زیادہ مجرمانہ کردار ادا کیا وہ ان کا مال دار طبقہ تھا۔ جن کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ جب ہم کسی بستی کو تباہی کے گھاٹ اتارتے ہیں تو اس کے مالدار طبقے کو کھلی چھٹی (Free Hand) دے دیتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں ان کی پالیسیوں اور کردار سے فسق و فجور پیدا ہوتا ہے۔ تب ہمارا حکم نازل ہوتا ہے۔ جس کے سبب ان کو تباہ و برباد کردیا جاتا ہے۔ برباد ہونے والوں میں قوم نوح اور ان کے بعد آنے والی بے شمار اقوام ہیں۔ جنہیں تباہی کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ لوگوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے گناہوں کو اچھی طرح دیکھنے اور پوری طرح جاننے والا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () اَ لدُّنْیَا حُلْوَۃٌ خَضِرَۃٌ وَاِنَّ اللّٰہَ مُسْتَخْلِفُکُمْ فِیْھَا فَیَنْظُرُ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ فَاتَّقُوا الدُّنْیَا وَا تَّقُوالنِّسَاءَ فَاِنَّ اَوَّلَ فِتْنَۃِ بَنِیْ اِسْرَاءِیْلَ کَانَتْ فِی النِّسَاءِ)[ رواہ مسلم : باب اکثر اہل الجنۃ الفقراء] ” حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا بلاشبہ دنیا ہری بھری اور پر لطف ہے اور اللہ نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے وہ دیکھ رہا ہے تم کیا عمل کررہے ہو۔ تم دنیا اور عورت کے فتنے سے بچے رہنا کیونکہ بنی اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورتوں کی وجہ سے رونما ہوا تھا۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب لوگوں کے برے اعمال کی وجہ سے آتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب اتمام حجت کے بعد آتا ہے۔ 3۔ جس بستی پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آئے وہ تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ 4۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد بہت سی بستیوں والے ہلاک کردیے گئے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کے اعمال کی خبر رکھنے والا اور دیکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن: تباہ و برباد ہونے والی اقوام کی مالی اور سیاسی حالت : 1۔ جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو خوشحال لوگوں کو ڈھیل دیتے ہیں تو وہ نافرمانی پر اتر آتے ہیں۔ (بنی اسرائیل :17) 2۔ ہم نے ان سے پہلے کئی بستیوں کو ہلاک کیا جو ٹھاٹھ باٹھ میں بہت اچھے تھے۔ (مریم :74) 3۔ ہم نے ان سے پہلے کئی امتیں ہلاک کر ڈالیں، جو قوت میں مکہ والوں سے بڑھ کر تھیں۔ (ق :36) 4۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ نے ان سے پہلے بستیوں والوں کو ہلاک کیا جو طاقت، قوت اور مال کے لحاظ سے مکہ والوں سے بڑھ کرتھے۔ (القصص :78) 5۔ بستیوں والوں کے ظلم کی وجہ سے اللہ نے انہیں ہلاک کردیا۔ (یونس :13)