وَقَضَيْنَا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ فِي الْكِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيرًا
اس کتاب میں ہم نے بنی اسرائیل کو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ تم زمین پر دوبارہ فساد عظیم بپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھاؤ گے
فہم القرآن : (آیت 4 سے8) ربط کلام : بائبل کے مجموعۂ کتب مقدسہ میں یہ تنبیہات مختلف مقامات پر ملتی ہیں۔ پہلے فساد اور اس کے برے نتائج پر بنی اسرائیل کو متنبہ کیا گیا۔ دوسرے فساد اور اس کی سخت سزا کی پیشین گوئی حضرت مسیح (علیہ السلام) نے کی ہے جو متٰی اور لوقا کی انجیلوں میں موجود ہے۔ ذیل میں ہم ان کتابوں کی متعلقہ عبارتیں نقل کرتے ہیں تاکہ قرآن کے اس بیان کی تصدیق ہوجائے۔ پہلے فساد پر اولین تنبیہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے کی تھی جس کے الفاظ یہ ہیں : ” انہوں نے ان قوموں کو ہلاک نہ کیا جیسا خداوند نے ان کو حکم دیا تھا بلکہ ان قوموں کے ساتھ مل گئے اور ان جیسے کام سیکھ لیے اور ان کے بتوں کی پرستش کرنے لگے جو ان کے لیے پھندا بن گئے۔ بلکہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کو شیاطین کے لیے قربان کیا اور معصوموں یعنی اپنے بیٹیوں کا خون بہایا۔۔ اس لیے خداوند کا قہر اپنے لوگوں پر بھڑکا یا اور اسے اپنی میراث سے نفرت ہوگئی اور اس نے ان قوموں کے قبضے میں کردیا اور ان سے عداوت رکھنے والے ان پر حکمران بن گئے۔“ [ زبور : باب 106آیات 34۔14] جب یہ فساد عظیم رونما ہوا۔ تو اس کے نتیجے میں آنے والی تباہی کی خبر حضرت یسعیاہ ( علیہ السلام) نبی اپنے صحیفے میں یوں دیتے ہیں : ” آہ! خطا کار گروہ، بدکرداری سے لدی ہوئی قوم، بدکرداروں کی نسل مکار اولاد جنہوں نے خداوند کو ترک کیا، اسرائیل کے قدوس کو حقیر جانا اور گمراہ وبرگشتہ ہوگئے، تم زیادہ بغاوت کر کے اور مار کھاؤ گے۔“ [ باب : 1، آیت 4۔5] ” وفادار بستی کیسی بد کار ہوگئی! وہ تو انصاف سے معمور تھی اور راست بازی اس میں بستی تھی لیکن اب خونی رہتے ہیں۔۔ تیرے سردار گردن کش اور چوروں کے ساتھی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک رشوت دوست اور انعام طلب ہے۔ وہ یتیموں سے انصاف نہیں کرتے اور بیواؤں کی فریاد ان تک نہیں پہنچتی۔ اس لیے خدا وند رب الافواج اسرائیل کا قادر فرماتا ہے کہ آہ میں ضرور اپنے مخالفوں سے آرام پاؤں گا اور اپنے دشمنوں سے انتقام لوں گا۔“ [ باب : 1، آیت 21تا24] ” وہ اہل مشرق کی رسوم سے پر ہیں اور فلسفیوں کی مانند شگون لیتے ہیں اور بیگانوں کی اولاد کے ساتھ ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہیں۔۔ اور ان کی سر زمین بتوں سے پُر ہے۔ وہ اپنے ہی ہاتھوں کی صنعت یعنی اپنی ہی انگلیوں کی کاریگری کو سجدہ کرتے ہیں۔“ [ زبور : باب 2آیت 6۔8] ” اے بنو اسرائیل کے گھرانے! دیکھ میں ایک قوم کو دور سے تجھ پر چڑھالاؤں گا۔ خداوند فرماتا ہے وہ زبر دست قوم ہے وہ قدیم قوم ہے وہ ایسی قوم ہے جس کی زبان تو نہیں جانتا اور ان کی بات کو تو نہیں سمجھتا۔ ان کے ترکش کھلی قبریں ہیں۔ وہ سب بہادر مرد ہیں وہ تیری فصل کا ناج اور تیری روٹی جو تیرے بیٹوں بیٹیوں کے کھانے کی تھی کھا جائیں گے۔ تیرے گائے بیل اور تیری بکریوں کو چٹ کر جائیں گے۔ تیرے انگور اور انجیر نگل جائیں گے۔ تیرے مضبوط شہروں کو جن پر تیرا بھروسا ہے تلوار سے ویران کردیں گے۔“ [ زبور : باب 5آیت 15۔17] ” اس قوم کی لاشیں ہوائی پرندوں اور زمین کے درندوں کی خوارک ہوں گی اور ان کو کوئی نہ ہنکائے گا۔ میں یہوداہ کے شہروں میں اور یروشلم کے بازاروں میں خوشی اور شادمانی کی آواز، دولہا اور دلہن کی آواز موقوف کروں گا تاکہ یہ ملک ویران ہوجائے۔“ [ زبور : باب 7آیت 33۔34] ” ان کو میرے سامنے نکال دے کہ چلے جائیں اور جب وہ پوچھیں کہ ہم کدھر جائیں تو ان سے کہناکہ خدا وند فرماتا ہے کہ جو موت کے لیے وہ موت کی طرف اور جو تلوار کے لیے ہیں وہ تلوار کی طرف اور جو قحط کے لیے وہ قحط کی طرف اور جو اسیری کے لیے وہ اسیری میں۔“ [ زبور : باب 5آیت 2۔3] یہ تھیں وہ تنبیہات جو بنی اسرائیل کے پہلے فساد عظیم کے موقع پر کی گئی۔ (ماخوذ از تفہیم القرآن ) مسائل: 1۔ بنی اسرائیل زمین میں فساد کرتے ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر سخت گیر بندے مسلط فرمائے۔ 3۔ بنی اسرائیل کے گھروں کو تباہ وبرباد کردیا گیا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے مال اور بیٹے عطا فرماتا ہے۔ 5۔ نیکی کا صلہ نیکی کرنے والے کو ہی ملے گا۔ 6۔ برے کو اس کی برائی کا بدلہ ضرور ملے گا۔ 7۔ اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے اپنی رحمت کا نزول کرتا ہے۔ 8۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے جہنم قید خانہ بنایا۔ تفسیر بالقرآن: کفار کا ٹھکانہ : 1۔ کفار سے فرما دیں کہ عنقریب تم مغلوب ہوگے اور تمہیں جہنم کی طرف اکٹھا کیا جائے گا۔ (آل عمران :12) 2۔ کفار کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے۔ (النساء :97) 3۔ کفار کے لیے جہنم کی آگ ہے۔ اس میں انہیں موت نہیں آئے گی۔ (فاطر :36) 4۔ کفار کو جہنم کی طرف گروہ در گروہ ہانکا جائے گا۔ (الزمر :71) 5۔ مجرم لوگ ہمیشہ جہنم کے عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ (الزخرف :74) 6۔ کفار کا ٹھکانہ جہنم ہے جب اس کی آگ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اس کو اور بھڑکا دیں گے۔ (بنی اسرائیل :97) 7۔ سرکشوں کے لیے انتہائی بری جگہ ہے ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور برا ہے ان کا بچھونا۔ (ص :56) 8۔ وہ لوگ جنھوں نے اہل کتاب اور مشرکین میں سے کفر کیا وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ (البینۃ:6) 9۔ کفار کاٹھکانہ جہنم ہے اور وہ اس سے بچنے کی جگہ نہیں پائیں گے۔ (النساء :121) 10۔ اے نبی ! کفا رکے خلاف جہاد کیجیے اور ان پر سختی کریں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (التحریم :9)