سورة النحل - آیت 124

إِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَى الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَإِنَّ رَبَّكَ لَيَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور رہا سبت (ہفتہ) کا قصہ تو وہ صرف ان لوگوں پر مسلط کیا گیا جنہوں نے اس بارے میں اختلاف [١٢٦] کیا تھا۔ آپ کا پروردگار قیامت کے دن یقیناً ان باتوں کا فیصلہ کردے گا جن میں یہ اختلاف [١٢٧] کیا کرتے تھے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : یہودی بڑی شد و مد کے ساتھ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مذہب اور نسب کے اعتبار سے ابراہیم (علیہ السلام) کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ قرآن مجید دو ٹوک انداز میں اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ یہود ونصاریٰ کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوا : ” اے اہل کتاب تم ابراہیم کے بارے میں کس بنیاد پر جھگڑا کرتے ہو۔ حالانکہ تورات اور انجیل ابراہیم کے بعد نازل کی گئی ہیں کیا تم پھر بھی سمجھنے کے لیے تیار نہیں ؟ تم وہ لوگ ہو جو ایسی باتوں کے بارے میں جھگڑا کرتے ہو جن کا تمہیں کچھ علم ہے مگر ایسی باتوں میں کیوں جھگڑتے ہو جن کا تمہیں کچھ علم نہیں۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں۔ حضرت ابراہیم یہودی تھے اور نہ ہی عیسائی وہ تو موحّد مسلمان تھے۔ ان کا مشرکوں کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔ حضرت ابراہیم کے قریب تر وہ لوگ تھے جنہوں نے ان کی اتباع کی ان کے بعد سرور دو عالم اور آپ کے متبعین ابراہیم کے زیادہ قریب ہیں اور اللہ مومنوں کا حامی وناصر ہے۔“ (آل عمران : 65تا68) اسی بات کی یہاں دوسرے انداز میں وضاحت کی گئی ہے۔ ہفتہ کا دن ان لوگوں پر لازم کیا گیا جنہوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا تھا۔ یقیناً آپ کا رب قیامت کے دن ضرور فیصلہ فرمائے گا، جس میں یہ لوگ اختلاف کرتے ہیں۔ یہود یوں کا دعویٰ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین میں جمعہ کے بجائے ہفتہ کا دن عبادت کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ اس دعویٰ کی بنیاد پر یہودی نبی محترم (ﷺ) پر الزام لگاتے تھے کہ انہوں نے ہماری مخالفت کی بنیاد پر ہفتہ کا دن چھوڑ کر جمعہ کا دن مقرر کرلیا ہے۔ جس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ہفتہ کا دن یہودیوں نے اپنی مرضی سے اپنے آپ پر فرض کرلیا ہے اس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ ملت ابراہیم میں جمعہ کا دن ہی عبادت کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔ اس کی وضاحت سرور دو عالم (ﷺ) نے اس طرح فرمائی ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () خَیْرُ یَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ فِیْہِ خُلِقَ اٰدَمُ وَفِیْہِ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ وَفِیْہِ اُخْرِجَ مِنْھَا وَلَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اِلَّا فِیْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ) [ رواہ مسلم : باب فضل یوم الجمعۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) آپ (ﷺ) کا فرمان نقل کرتے ہیں دنوں میں سب سے بہتر دن جمعہ کا دن ہے اس دن آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا گیا اسی دن ان کو جنت میں داخلہ ملا اور جمعہ کو ہی ان کا اخراج ہوا اور اسی دن قیامت برپا ہوگی۔“ (عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ () لاَ یَغْتَسِلُ رَجُلٌ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، وَیَتَطَہَّرُ مَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُہْرٍ، وَیَدَّہِنُ مِنْ دُہْنِہِ، أَوْ یَمَسُّ مِنْ طیبِ بَیْتِہِ ثُمَّ یَخْرُجُ، فَلاَ یُفَرِّقُ بَیْنَ اثْنَیْنِ، ثُمَّ یُصَلِّی مَا کُتِبَ لَہُ، ثُمَّ یُنْصِتُ إِذَا تَکَلَّمَ الإِمَامُ، إِلاَّ غُفِرَ لَہُ مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْجُمُعَۃِ الأُخْرَی )[ رواہ البخاری : باب الدُّہْنِ لِلْجُمُعَۃِ ] ” حضرت سلمان فارسی (رض) بیان کرتے ہیں نبی (ﷺ) نے فرمایا جو آدمی جمعہ کے دن غسل کرتا ہے اور استطاعت کے مطابق پاکیزگی حاصل کرتا ہے، بالوں کو تیل لگاتا ہے اور خوشبو لگاتا ہے، پھر وہ مسجد کی طرف نکلتا ہے اور لوگوں کے درمیان گھس کر نہیں بیٹھتا پھر جس قدر ممکن ہو وہ نماز پڑھتا ہے پھر خاموشی سے امام کا خطبہ سنتا تو اس کے آٹھ دنوں کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔“ مسائل: 1۔ یہودیوں پر ہفتہ کے دن کا احترام لازم کیا گیا تھا۔ 2۔ یہودیوں نے اس کے احترام کا خیال نہ کیا۔ 3۔ اللہ قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن: ہفتہ کے دن کا احترام نہ کرنے کی وجہ سے یہودیوں پر پھٹکار : 1۔ یہودیوں پر ہفتہ کے دن کا احترام لازم کیا گیا۔ (النحل :124) 2۔ ہم نے انہیں کہا کہ ہفتہ کے دن زیادتی نہ کرو۔ (النساء :154) 3۔ یہودی ہفتہ کے دن کا احترام نہیں کیا کرتے تھے۔ ( الاعراف :163) 4۔ یہودیوں نے ہفتہ کے دن زیادتی کی تو انہیں بندر بنا دیا گیا۔ (البقرۃ:65)