ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ یکسو رہنے والے ابراہیم کی ملت کی اتباع کرو [١٢٥] اور وہ مشرک نہ تھے
فہم القرآن : ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ اور ان کا مرتبہ ومقام ذکر کرنے کے بعد ان کی ملت کی اتباع کا حکم۔ اللہ تعالیٰ نے ہر پیغمبر کو ظاہری اور جوہری صلاحیتیوں کے اعتبار سے منفرد پیدا کیا تھا۔ ہر پیغمبر اپنے دور کے انسانوں میں سیرت اور صورت کے حوالے سے بھی ممتاز ہوتا تھا۔ ان اوصاف کے ساتھ ہر رسول میں کچھ ایسی خوبیاں ودیعت کی جاتی تھیں۔ جن کی بنا پر ہر رسول دوسرے سے منفرد ہوتا تھا۔ جس کا تذکرہ یوں کیا گیا ہے : ” یہ رسول ہیں ہم نے انہیں ایک ایک دوسرے پر فضیلت دی ان میں کچھ ایسے تھے جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا اور کچھ وہ تھے جن کے درجات بلند کیے اور حضرت عیسیٰ بن مریم کو روشن نشانیاں عطا کرنے کے ساتھ جبرایل امین (علیہ السلام) کے ذریعے مدد کی گئی۔“ (البقرۃ:253) اسی اصول کے تحت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ایسی خوبیاں عنایت فرمائیں جو انہیں دوسرے انبیاء (علیہ السلام) سے منفرد اور ممتاز کرتی ہیں۔ سب کے سب انبیاء کرام (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے تابع فرماں، اپنے عقیدہ اور کام میں یکسو اور مشرکوں کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔ انبیاء عظام (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے، اس کے محبوب اور ہر حال میں صراط مستقیم پر قائم رہنے والے تھے۔ ان میں ایسے انبیاء بھی موجود ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے دیگر نعمتوں کے ساتھ سیاسی اقتدار بھی عنایت فرمایا تھا۔ اس طرح وہ دنیا کے حوالے سے بھی منفرد اور ممتاز تھے آخرت میں یقیناً وہ صالحین سے ہوں گے۔ اس مرتبہ ومقام کے باوجود کوئی نبی ایسا نہیں جس کی اتباع کا سرور دو عالم (ﷺ) اور آپ کی امت کو حکم دیا گیا ہو۔ یہ مقام و مرتبہ صرف سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو حاصل ہوا۔ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” جب ابراہیم کو اس کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا وہ ان میں پورے اترے۔ فرمایا کہ میں تمھیں لوگوں کا امام بناؤں گا۔ ابراہیم نے عرض کی کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟ ارشاد ہوا کہ ظالموں سے میرا کوئی وعدہ نہیں۔“ (البقرۃ:124) جہاں تک ملت ابراہیم (علیہ السلام) کا معاملہ ہے دین اسلام کے تمام بنیادی مسائل: اور احکام ملت ابراہیم کا تسلسل ہیں۔ قربانی کے بارے میں آپ (ﷺ) سے استفسار ہوا تو ارشاد فرمایا کہ یہ تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت ہے۔ حج اسلام کا بنیادی رکن ہے اس کے مناسک حج پر توجہ فرمائیں تو معلوم ہوگا کہ صفا مروہ کی سعی، زمزم کا پانی، اللہ کے حضور قربانی ذبح کرنا، شیطان کو کنکریاں مارنا یہ مناسک ملت ابراہیم (علیہ السلام) کے ترجمان ہیں۔ (عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ قَالَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا ہٰذِہِ الأَضَاحِیُّ قَالَ سُنَّۃُ أَبِیْکُمْ إِبْرَاہِیْمَ قَالُوْا فَمَا لَنَا فِیْہَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُلِّ شَعَرَۃٍ حَسَنَۃٌ قَالُوْا فَالصُّوْفُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُلِّ شَعَرَۃٍ مِّنَ الصُّوفِ حَسَنَۃٌ )[ رواہ ابن ماجۃ: باب الاضحیۃ] ” حضرت زید بن ارقم (رض) بیان کرتے ہیں صحابہ کرام (رض) نے عرض کی اے اللہ کے رسول ! یہ قربانیاں کیا ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا یہ تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت ہے۔ صحابہ (رض) نے پھر پوچھا اے اللہ کے رسول ! ہمارے لیے اس میں کیا ہے ؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا ہر ایک بال کے بدلے نیکی۔ صحابہ (رض) نے عرض کی جانور کی اون کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا اون کے بھی ہر بال کے بدلے نیکی ملے گی۔ مسائل: 1۔ آپ (ﷺ) کو ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کا حکم دیا گیا تھا۔ 2۔ ابراہیم (علیہ السلام) مشرکوں میں سے نہ تھے۔ تفسیر بالقرآن: ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی اتباع کا حکم اور اس کی اتباع : 1۔ پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ آپ ملت ابراہیم کی پیروی کریں۔ (النحل :123) 2۔ فرما دیجیے اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے کہ تم ابراہیم کی ملت کی پیروی کرو۔ (آل عمران :95) 3۔ ملت ابراہیم کی تابعداری کیجیے وہ یکسو تھا۔ (النساء :125) 4۔ ابراہیم کے دین سے کون روگردانی کرسکتا ہے سوائے اس کے کہ جو نادان ہو۔ (البقرۃ:130)