إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِّلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
بلاشبہ! ابراہیم (اپنی ذات میں) ایک امت تھے۔ اللہ کے فرمانبردار اور یکسو رہنے والے تھے۔ وہ ہرگز [١٢٣] مشرک نہ تھے
فہم القرآن : (آیت 120 سے 122) ربط کلام : اے لوگو! اگر تم اپنے رب کی رحمت اور بخشش کے طلب گار ہو تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اتباع کرو۔ بے شک ان کی طرح تمھیں اکیلا ہی کیوں نہ رہنا پڑے۔ لیکن یاد رکھنا جس پر اللہ کی رحمت ہو اسے اپنے آپ کو اکیلا نہیں سمجھانا چاہیے۔ کفار مکہ اور اہل کتاب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا پیشوا سمجھتے تھے۔ اس لیے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی ذات اور ان کی خدمات کے حوالے سے کفار مکہ اور اہل کتاب کو سمجھا یا گیا ہے کہ بات بات پر جس شخصیت کا تم حوالہ دیتے ہو اس گرامی قدر شخصیت کا عقیدہ اور کردار سنو۔ ابراہیم (علیہ السلام) اپنی ذات اور خدمات کے حوالے سے ایک پیشوا کی حیثیت رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے انتہا درجے کے فرمانبردار تھے۔ وہ دین اور اللہ کی عبادت میں بھی نہایت یکسو تھے۔ مشرکین کے ساتھ ان کا کوئی واسطہ نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر اس کے غایت درجہ شکر گزار تھے۔ ان اوصاف حمیدہ کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے خاص بندوں میں ایک خصوصی مقام سے نوازتے ہوئے ہر حالت میں صراط مستقیم پر گامزن رہنے کی ہمت عطا فرمائی تھی۔ دنیا میں انہیں ہر قسم کی خیر سے نوازا اور آخرت میں یقیناً وہ صالحین کے ساتھی ہوں گے۔ 1۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایک امت کی حیثیت سے : اہل لغت نے امت کے کئی معنی ذکر کئے ہیں۔ جن میں جامع اور اہم معانی یہ ہیں۔ والدہ، قوم، عوام، تمام فضائل حمیدہ کا حامل انسان۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کا فرمان ہے کہ امت کا معنی ہے ” مُعَلِّمُ الْخَیْرِ“ (صحیح بخاری : کتاب التفسیر، سورۃ النحل) اس اعتبار سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) میں وہ تمام اوصاف پائے جاتے ہیں جو ایک کامیاب قائد میں ہونے چاہییں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تنہا ہونے کے باوجود دنیا میں وہ کام کرگئے جو ایک کامیاب قوم اور قائد کیا کرتا ہے اسی وجہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دنیا کی ان شخصیات میں سرِفہرست ہیں جن کے اثرات قیامت تک باقی رہیں گے۔ دنیا میں کوئی آسمانی مذہب ایسا نہیں جو انہیں اپنا رہنما تسلیم نہیں کرتا۔ مذہب کے حوالے سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک امت قرار دیا ہے۔ 2۔ انتہا درجے کی فرمانبرداریوں کی ایک جھلک : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ اپنے رب کے تابع فرمان ہوجاؤ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایسے تابع فرمان ہوئے کہ انہوں نے ہر چیز اپنے رب کے حکم پر نچھاور کردی۔ 1۔ عقیدۂ توحید کی خاطر آگ میں چھلانگ لگا دی۔ 2۔ عقیدہ توحید کی بنا پر دنیا کی ٹھاٹ باٹ، گھر بار اور ہمیشہ کے لیے عراق کی سرزمین کو چھوڑ دیا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر اپنی اہلیہ اور اپنے نو نہال کو مکہ کی سر زمین پر چھوڑا۔ 4۔ خواب میں اشارہ پا کر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے حل قوم نازک پر چھری چلادی۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر بیت اللہ تعمیر کیا۔ 6۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق حج ادا کیا اور اس کے مناسک بیان فرمائے۔ 7۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) میں خصوصی مقام کے حامل ۔ 8۔ ہر حال میں صراط مستقیم پر گامزن رہنے والے ۔ 9۔ دنیا کے حوالے سے معتبر اور معزز شخصیت ۔ 10۔ آخرت میں انبیاء کرام (علیہ السلام) کی جماعت کے ممتاز ترین رکن ۔ 11۔ تمام لوگوں کے امام قرار پائے۔ مسائل: 1۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار تھے۔ 2۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مؤاحد تھے مشرک نہ تھے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے تھے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابر اہیم (علیہ السلام) کو صراط مستقیم پر گامزن کیا تھا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی انہیں بھلائی کے ساتھ نوازا تھا۔ 6۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) آخرت میں نیکو کاروں میں ہیں۔