مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
جس شخص نے ایمان لانے کے بعد اللہ سے کفر کیا، اِلا یہ کہ وہ مجبور کردیا جائے اور اس کا دل [١١١] ایمان پر مطمئن ہو (تو یہ معاف ہے) مگر جس نے برضا و رغبت کفر قبول کیا [١١٢] تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لئے بہت بڑا عذاب ہے
فہم القرآن : ربط کلام : قرآن مجید کی تکذیب اور رسول اکرم (ﷺ) پر مختلف الزام لگانے کا مقصد آپ پر دباؤ ڈالنا اور صحابہ کو دین سے متنفر کرنا مقصود تھا جس کے لیے کفار کمزور مسلمانوں پر ہر قسم کا ظلم کرنا جائز سمجھتے تھے ان حالات میں مظلوم صحابہ کو تسلی دینے کے ساتھ ان کے ایمان کی تائید اور حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ اہل مکہ نے کمزور مسلمانوں کا حلقۂ حیات اس طرح تنگ کر رکھا تھا کہ بیچارے مسلمان کسی سے فریاد بھی نہیں کرسکتے تھے۔ ابتدائی سالوں میں رسول محترم (ﷺ) کی اپنی حالت یہ تھی کہ آپ دارِارقم میں خفیہ انداز میں اپنے ساتھیوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام فرمایا کرتے تھے۔ ان نازک حالات میں کمزور اور غلام مسلمانوں پر اس قدر مظالم ڈھائے جاتے کہ جس کی روئداد لکھتے وقت کلیجہ پسیجنے کے ساتھ قلم لرز جاتا ہے۔ اس آیت کا پس منظر بیان کرتے ہوئے اکثر مفسرین نے آل یاسر کا تذکرہ کیا ہے۔ حضرت عمار (رض) کے سامنے ان کی والدہ ماجدہ حضرت سمیہ (رض) کو اس بے شرمی کے ساتھ ابو جہل نے شہید کیا کہ ان کے اندام نہانی پر نیزہ مارا۔ اسی حالت میں یہ عظیم خاتون دنیا سے رخصت ہوگئی۔ اس کے بعد حضرت عمار (رض) کے والد حضرت یاسر (رض) پر بے انتہا مظالم ڈھائے گئے۔ بالآخر وہ بھی اللہ کو پیارے ہوئے، شہادت کا یہ پہلا خون تھا جس سے مکہ کی زمین لالہ زار ہوئی۔ حضرت یاسر اور ان کی زوجہ مکرمہ کے بعد ابو جہل اور اس کے گماشتوں نے حضرت عمار (رض) پر مظالم کا سلسلہ جا ری رکھا کہ ایک دن کڑ کڑاتی دھوپ میں تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر دہکتے ہوئے انگارے ان کی کمر پر رکھے گئے۔ اس حالت میں ابوجہل اور اس کے غنڈوں نے حضرت عمار (رض) کو اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک ان کی زبان سے کفریہ کلمات نکلوانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ حضرت عمار (رض) کو جب وحشیانہ مظالم سے نجات ملی تو گھر جانے کی بجائے روتے ہوئے سیدھا رسالت مآب (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ (ﷺ) یہ حالت دیکھ کراستفسار فرماتے ہیں۔ کَیْفَ اَنْتَ یَا عَمَّارُ۔ حضرت عمار (رض) کی ہچکی بندھ گئی اس حالت میں عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ کے رسول ! دل پوری طرح اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں مطمئن ہے۔ حضرت عمار (رض) ابھی یہ الفاظ ادا کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو یہ خوشخبری دے کر بھیجا کہ جس شخص نے بے حد مجبوری کی حالت میں ایمان لانے کے بعد کفر کا کلمہ کہا مگر اس کا دل ایمان پر مطمئن ہے اس پر کوئی گناہ نہیں البتہ جس نے بے حد مجبوری کے بغیر کلمۂ کفر کہا اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوگا اور اسے عظیم عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ لفظ ” اِکْرِہَ“ کی تشریح کرتے ہوئے اہل علم نے لکھا ہے۔ جب مظلوم کو یقینی طور پر اس بات کا علم ہوجائے کہ اب اس کا بچ نکلنا محال ہے اس وقت مظلوم کلمۂ کفر کہہ سکتا ہے لیکن یہ عزیمت کا راستہ نہیں۔ اس لیے صحابہ کرام (رض) نے کٹ مرنا گوارا کرلیا مگر انھوں نے اللہ کے دین کو نہیں چھوڑا۔ کیونکہ اگر ہر آدمی معرکۂ حق و باطل میں جان بچانے کی کوشش کرے تو اسلامی انقلاب برپا نہیں ہوسکتا۔ نہ دین آنے والی نسلوں تک پہنچ سکتا ہے۔ جہنم کے عذاب کی کیفیت : (عَنْ سَمُرَۃَ ابْنِ جُنْدُبٍ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) قَالَ مِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُاِلٰی کَعْبَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُُہُ النَّارُاِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی حُجْزَتِہٖ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی تَرْقُوَتِہٖ) [ راہ مسلم : باب فی شدۃ حر النار] ” حضرت سمرہ بن جندب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (ﷺ) نے فرمایا جہنم کی آگ نے بعض لوگوں کے ٹخنوں تک، بعض کے گھٹنوں تک اور بعض کو کمر تک گھیرا ہوگا اور بعض کی گردن تک پہنچی ہوگی۔“ مسائل: 1۔ ایمان لانے کے بعد کفر اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ 3۔ مرتد کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ 2۔ مجبوری کی حالت میں جان بچانے کی خاطر کفریہ کلمات کہے جا سکتے ہیں۔ 4۔ عملاً کفر اختیار کرنے والے پر اللہ کا غضب ہے۔ تفسیر بالقرآن: کفار کے لیے اذیت ناک عذاب : 1۔ ایمان لانے کے بعد کفر کرنے والے کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ (النحل :106) 2۔ کفارکے لیے آگ کا عذاب ہے۔ (الانفال :14) 3۔ عنقریب کفار کو درد ناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ (التوبۃ:90) 4۔ ان کے کفر کی وجہ سے ہم انہیں شدید ترین عذاب چکھائیں گے۔ (یونس :70)