وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ ۙ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوا إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
اور جب ہم ایک آیت کے بجائے دوسری آیت تبدیل کرکے نازل کرتے ہیں۔[١٠٤] اور اللہ جو کچھ نازل فرماتا ہے اس (کی مصلحت) کو خوب جانتا ہے، تو یہ لوگ کہنے لگتے ہیں کہ : تم تو اپنے پاس [١٠٥] سے بنا لائے ہو'' حالانکہ ان میں اکثر لوگ (حقیقت حال) کو نہیں جانتے
فہم القرآن : ربط کلام : قرآن مجید کے بارے میں ایک وضاحت اور اس حوالے سے نبی (ﷺ) پر لگائے جانے والے الزام کی تردید۔ کفار اور اہل کتاب کو قرآن مجید پر ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اس کی بعض آیات اور احکام میں ردوبدل کیوں پایا جاتا ہے۔ اس اعتراض کا یہاں اس طرح جواب دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ اپنی آیات اور احکام میں جو ردوبدل فرماتا ہے اس کی حکمت کما حقہ وہی جانتا ہے۔ البتہ اس کے پیچھے لوگوں کی خیر خواہی مقصود ہوتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے حالات کے مطابق اپنے احکام میں ردّوبدل نہ فرمائے تو اس سے لوگوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سورۃ البقرۃ آیت 106، میں اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم کوئی آیت منسوخ کریں یا اس سے ملتی جلتی دوسری آیت لے آئیں تو یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا انتخاب اور اس کا اختیار ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر بات پر اختیار رکھتا ہے۔ یہ حاکم مطلق کی مرضی اور مشیت ہے کہ شریعت کے جس حکم کو چاہے معطل، منسوخ یا اس میں ردّوبدل فرمائے۔ اس میں مخلوق کا نہ تو عمل دخل ہے اور نہ ہی کسی کو اعتراض کرنے کی گنجائش ہے۔ یہاں تک کہ رسول (ﷺ) بھی اس میں زیروزبر کی تبدیلی کا اختیار نہیں رکھتے تھے یہ قادرمطلق اور شہنشاہ عالم کا اختیار ہے کہ وہ اپنے حکم کو جس طرح چاہے، جب چاہے اور جس قدر چاہے اس میں تبدیلی کرے لیکن اس کے باوجود قرآن مجید کے منکر رسول محترم (ﷺ) پر یہ الزام لگاتے تھے کہ آپ (ﷺ) نے یہ قرآن مجید خود گھڑ لیا ہے۔ کیونکہ ان کے اس الزام کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ اس لیے اس آیت کے آخر میں فرمایا ہے کہ لوگوں کی اکثریت آیات اور احکام کے ردّوبدل کی حکمت نہیں جانتی جس وجہ سے وہ آپ (ﷺ) کی ذات اقدس پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ قرآن مجید اپنی طرف سے بنا لیتے ہیں۔ حالانکہ الزام لگانے والوں کو بارہا دفعہ چیلنج کیا گیا کہ اگر تم اپنے دعوی میں سچے ہو تمام کے تمام مل کراس جیسی چھوٹی سے چھوٹی سورت بنا لاؤ۔ تبدیلی اور نسخ کا فائدہ : نسخ کا معنٰی ہے کسی بات کو مٹانا یا اس کا ازالہ کرنا۔ اس کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں : (1) ایک حکم خاص مدت کے لیے ہو، دوسری مدت کے لیے دوسرا حکم نازل ہوجائے۔ (2) تربیت اور خاص مصلحت کی خاطر پہلے حکم میں نرمی اور کچھ گنجائش ہو بعد ازاں مکمل اور دائمی حکم نازل کردیا جائے۔ جس طرح شراب کی حرمت، قبلہ کی تبدیلی اور دوسرے معاملات کے بارے میں تدریجاً احکامات نازل ہوئے۔ قرآن مجید میں اس کے برعکس بھی مثال موجود ہے کہ قتال کے سلسلہ میں پہلا حکم سخت تھا لیکن اس کے بعد اس میں نرمی کردی گئی۔ (3) پہلا حکم لوگوں کی خاص حالت کے بارے میں ہوبعدازاں حالات کی تبدیلی کی وجہ سے اسے کلیۃً منسوخ کردیا جائے اور اس کی جگہ اس سے ملتا جلتا یا اس سے جامع اور کثیر المقاصد حکم نازل کردیا جائے۔ قرآن مجید میں تینوں اقسام کی امثال موجود ہیں۔ جن علماء نے ان تینوں اقسام کو ناسخ اور منسوخ میں شامل کیا ہے انہوں نے درجنوں آیات کو اس زمرہ میں شامل کردیا حالانکہ ناسخ‘ منسوخ کو حقیقی اور کلی معنوں میں لیا جائے تو ان کی تعداد چند آیات سے زیادہ نہیں ہے۔ اس بنا پر شاہ ولی اللہ (رض) نے صرف پانچ آیات کو منسوخ شمار کیا ہے۔ (الفوز الکبیر : شاہ ولی اللہ ) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے احکام منسوخ کرنے یا ان میں ردّ وبدل کرنے کا پورا حق ہے۔ 2۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملک ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔ تفسیر باالقرآن : لوگوں کی اکثریت دین کے بارے میں بے علم اور نا سمجھ ہوتی ہے : 1۔ اکثر ان کے بے علم ہیں۔ (النحل :101) 2۔ اللہ تعالیٰ آیات اتارنے پر قادر ہے لیکن اکثر بے خبر ہیں۔ (الانعام :37) 3۔ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف :21) 4۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر بے خبر ہیں۔ (الروم :40) 5۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ بے علم ہیں۔ (النحل :38) 6۔ اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (الروم :6)