أَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرَاتٍ فِي جَوِّ السَّمَاءِ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
کیا انہوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا کہ آسمانی فضا میں کیسے مسخر ہیں۔ انھیں اللہ ہی تھامے [٨٠] ہوئے ہے۔ جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں [٨١] ہیں
فہم القرآن : ربط کلام : پرندوں کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا حوالہ دے کر انسان کو ایمان لانے کی دعوت دی ہے۔ جانوروں اور پرندروں میں معاشرے کا وجود : ﴿وَمَا مِنْ دَابَّۃٍ فِی الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ یَطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُکُمْ مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ إِلَی رَبِّہِمْ یُحْشَرُوْنَ﴾[ الانعام :38] ” زمین میں چلنے والے کسی جانور اور ہوا میں پروں سے اڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو یہ سب تمہاری ہی طرح کی اقسام ہیں اور ہم نے ان کی تقدیر کے نوشتے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے پھر یہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جاتے ہیں۔“ جدیدتحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جانور اور پرندے بھی معاشروں کی شکل میں رہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ان میں بھی اجتماعی نظم وضبط ہوتا ہے اور مل جل کر رہتے ہیں اور اپنا اپنا کام کرتے ہیں۔ پرندوں کی پرواز : ﴿أَلَمْ یَرَوْا إِلَی الطَّیْرِ مُسَخَّرَاتٍ فِی جَوِّ السَّمَاءِ مَا یُمْسِکُہُنَّ إِلَّا اللَّہُ إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآَیَاتٍ لِقَوْمٍ یُؤْمِنُوْنَ﴾[ النحل :79] ” کیا ان لوگوں نے کبھی پرندوں کو نہیں دیکھا کہ فضائے آسمانی میں کس طرح مسخر ہیں۔ اللہ کے سوا کس نے ان کو تھام رکھا ہے۔ اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔“ ایک اور آیت مبارکہ میں پرندوں پر کچھ اس انداز سے بات کی گئی ہے : ﴿أَوَلَمْ یَرَوْا إِلَی الطَّیْرِ فَوْقَہُمْ صَافَّاتٍ وَیَقْبِضْنَ مَا یُمْسِکُہُنَّ إِلَّا الرَّحْمَنُ إِنَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ بَصِیْرٌ ﴾[ الملک :19] ” یہ لوگ اپنے اوپر اڑنے والے پرندوں کو پر پھیلاتے اور سکیڑتے نہیں دیکھتے ؟ رحمان کے سوا کوئی نہیں جو انہیں تھامے ہوئے ہو وہی ہر چیز کا نگہبان ہے۔“ عربی لفظ ” امسک“ کا لغوی ترجمہ ” کسی کے ہاتھ میں ہاتھ دینا، روکنا، تھامنا، یا کسی کی کمر پکڑ لینا“ ہے۔ مذکورہ بالا آیت میں ﴿یُمسکُھُنَّ﴾ سے اس بات کا اظہار ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور اپنے اختیار سے پرندوں کو ہوا میں تھامے رکھتا ہے، ان آیات ربانی میں اس پر زور دیا گیا ہے کہ پرندوں کے طرز کا مکمل انحصار انہی قوانین پر ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے تخلیق فرمایا ہے۔ اور جنہیں ہم قوانین فطرت کے نام سے جانتے ہیں جدید سائنسی معلومات سے ثابت ہوچکا ہے کہ بعض پرندوں میں پرواز کی بے مثل اور بے عیب صلاحیت کا تعلق اس وسیع تر اور مجموعی منصوبہ بندی (پروگرامنگ) سے ہے جو ان کی حرکات و سکنات سے متعلق ہے۔ مثلاً ہزاروں میل دور تک نقل مکانی کرنے والے پرندوں کی جینیاتی رموز (جینیٹک کو دز) میں ان کے سفر کی تمام تر تفصیلات و جزئیات موجود ہیں، جو ان پر ندوں کو اس قابل بناتی ہیں کہ وہ نہایت کم عمری میں بھی لمبے سفر کے کسی تجربے اور کسی رہنما کے بغیر ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرلیں اور پیچیدہ راستوں سے پرواز کرتے چلے جائیں۔ بات صرف سفر کی یک طرفہ تکمیل ہی پر ختم نہیں ہوجاتی، بلکہ وہ ایک مخصوص تاریخ پر اپنے عارضی مسکن سے پرواز کرتے ہیں اور ہزاروں میل واپسی کا سفر کرکے ایک بار پھر اپنے گھونسلوں تک بالکل ٹھیک ٹھیک جا پہنچتے ہیں۔ پروفیسر ہیمبر گرنے اپنی کتاب ” پادر اینڈ فریجیلٹی“ میں ” مٹن برڈ“ نامی ایک پرندے کی مثال دی ہے جو بحرالکال کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ نقل مکانی کرنے والا یہ پرندہ 000، 24(چوبیس ہزار) کلومیٹر کا فاصلہ 8کی شکل میں چکر لگا کر طے کرتا ہے۔ یہ اپنا سفر چھ ماہ میں پورا کرتا ہے اور مقام ابتداء تک زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے کی تاخیر سے واپس پہنچ جاتا ہے۔ ایسے کسی سفر کے لیے نہایت پیچیدہ معلومات کا ہونا ضروری ہے جو اس پرندے کے اعصابی خلیات میں محفوظ ہونی چاہیں۔ یعنی ایک باضابطہ ” پروگرام“ کی شکل میں پرندے کے جسم میں موجود اور ہمہ وقت دستیاب ہوتی ہے۔ اگر پرندے میں کوئی پروگرام ہے تو کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اسے تشکیل دینے والا کوئی ” پروگرامز“ بھی یقیناً ہے ؟ (از : خطبات ڈاکٹر ذاکر نائیک) مسائل: 1۔ پرندوں کو فضا میں ٹھہرانے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ 2۔ ایمانداروں کے لیے پرندوں میں بہت سی نشانیاں ہیں۔