سورة البقرة - آیت 191

وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّىٰ يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

اور ان سے لڑو، جہاں بھی ان سے مڈ بھیڑ ہوجائے اور انہیں وہاں سے نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے [٢٥٢] اور فتنہ [٢٥٣] قتل سے بھی زیادہ برا ہے اور مسجد الحرام کے قریب ان سے جنگ نہ کرو الا یہ کہ وہ یہاں لڑائی شروع کردیں اور اگر وہ اس جگہ تم سے لڑائی کریں تو پھر ان کو قتل کرو کہ [٢٥٤] ایسے کافروں کی یہی سزا ہے

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن ربط کلام : حرمت کے مہینوں کا تعلق بھی چاند سے ہے۔ اس لیے حرمت کے مہینوں کے بیان میں ان سے متعلقہ مسائل کا بیان ضروری سمجھا گیا۔ رسول محترم {ﷺ}اور مسلمانوں کو کفار کے ظلم وستم سہتے ہوئے اٹھارہ سال گزر چکے تھے۔ اس دوران مسلمانوں پر یکے بعد دیگرے بدر، احد اور خندق کی جنگیں بھی مسلط کی گئیں۔ لیکن آپ اور مسلمانوں نے ہمت نہیں ہاری۔ نبوت کے اٹھارہویں سال ایک غیبی اشارے کی بنیاد پر عمرہ کی نیت سے آپ عازم مکہ ہوئے۔ لیکن اہل مکہ نے قومی اخلاق اور حرم کی دینی اقدار کی پرواہ کیے بغیر رسول اللہ {ﷺ}کو عمرہ کرنے سے روک دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ عمرہ کی نیت سے مکہ کی طرف چلے تھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میں اہل مکہ کے لیے یہ پیغام تھا کہ مسلمان اخلاقی اور عسکری لحاظ سے اس قابل ہوچکے ہیں کہ وہ جب چاہیں مرکز ملت بیت اللہ کو کفار سے واگزار کرواسکتے ہیں۔ اہل مکہ نے اس حقیقت کو محسوس کرتے ہوئے اس شرط پر خصوصی طور پر اصرار کیا کہ اس سال تو بہر حال تمہیں واپس ہی جانا پڑے گا۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ حرم کی تولیّت ہمارا قومی اور دینی حق ہے اگر ہم نے اس حال میں مسلمانوں کو مکے میں داخلہ کی اجازت دے دی تو ہمارے قومی اور ملی وقار کو شدید دھچکا لگے گا۔ رسول اللہ {ﷺ}نے تصادم سے بچنے کے لیے اپنا ارادہ ملتوی فرمایا اور اگلے سال آنے کی شرط قبول فرمائی۔ جب اگلے سال مسلمان مکہ جانے لگے تو ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہونا فطری امر تھا کہ اگر اس سال بھی ہم روک دیے گئے تو کیا ہوگا؟ اس کے جواب میں جہاد کا حکم دیتے ہوئے بارہ ہدایات جاری فرمائی گئی ہیں : ١۔ لڑائی کرنے والوں سے جنگ کرو۔ ٢۔ زیادتی نہ کرو۔ ٣۔ زیادتی کرنے والوں کو جہاں پاؤ قتل کردو۔ ٤۔ جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا وہاں سے انہیں بھی نکال دو۔ ٥۔ فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے۔ ٦۔ مسجد حرام کے نزدیک جب تک وہ نہ لڑیں تم بھی نہ لڑو۔ ٧۔ اگر وہ تم سے مسجد حرام میں قتال کریں تو تم بھی مسجد حرام میں قتال کرو۔ ٨۔ اگر باز آجائیں تو اللہ معاف کرنے والا ہے۔ ٩۔ فتنہ ختم ہونے تک قتال کرو۔ ١٠۔ حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے میں ہیں۔ ١١۔ حرمت میں قصاص ہے۔ ١٢۔ جتنی وہ زیادتی کریں تم بھی اتنی ہی کرو۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃ َ أَنَّ خُزَاعَۃَ قَتَلُوا رَجُلاً مِنْ بَنِی لَیْثٍ عَامَ فَتْحِ مَکَّۃَ بِقَتِیلٍ مِنْہُمْ قَتَلُوہُ، فَأُخْبِرَ بِذَلِکَ النَّبِیُّ {ﷺ}فَرَکِبَ رَاحِلَتَہُ، فَخَطَبَ فَقَالَ إِنَّ اللَّہَ حَبَسَ عَنْ مَکَّۃَ الْقَتْلَ أَوِ الْفِیلَ شَکَّ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ وَسَلَّطَ عَلَیْہِمْ رَسُول اللَّہِ وَالْمُؤْمِنِینَ، أَلاَ وَإِنَّہَا لَمْ تَحِلَّ لأَحَدٍ قَبْلِی، وَلاَ تَحِلُّ لأَحَدٍ بَعْدِی أَلاَ وَإِنَّہَا حَلَّتْ لِی سَاعَۃً مِنْ نَہَارَ.........)ٍ[ رواہ البخاری : باب کِتَابَۃِ الْعِلْمِ] حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں بیشک خزاعہ قبیلے کے لوگوں نے فتح مکہ والے سال بنی لیث کا ایک آدمی قتل کردیا۔ اس واقعہ کی اطلاع نبی کریم {ﷺ}کو دی گئی آپ {ﷺ}سواری پر سوار ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا یقینا اللہ نے مکہ میں قتل وغارت کو ممنوع قرار دیا ہے۔ یا آپ نے فیل کے لفظ استعمال فرمائے راوی کو شک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار پر اپنے رسول اور مومنوں کو مسلط فرمایا خبردارمیرے سے پہلے بھی کسی کے لیے مکہ کی حرمت کو پامال کرنا جائز تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے جائز ہوگا۔ اور میرے لیے کچھ وقت کے لیے اس میں لڑائی کو حلال قرار دیا گیا تھا۔“ مسائل ١۔ مسلمانوں کے خلاف لڑنے والوں کے ساتھ جہاد کرنا چاہیے۔ ٢۔ کسی پر زیادتی کرنا جائز نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ٣۔ کفار حدود حرم میں مسلمانوں پر حملہ آور ہوں تو حرم میں ان کے ساتھ لڑنا جائز ہے۔ ٤۔ مسلمانوں کے ساتھ لڑنے والے کفار کی سزا یہ ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے۔ ٥۔ اگر کافر لڑنے سے اجتناب کریں تو مسلمانوں کو بھی اجتناب کرنا چاہیے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ ہر حال میں معاف کرنے والا‘ مہربان ہے۔ ٧۔ غلبہ دین ہونے تک کفار کے ساتھ لڑنا چاہیے۔