وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ۚ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ ۚ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ
نیز اللہ نے تمہیں رزق کے معاملہ میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دے رکھی ہے۔ پھر جن لوگوں کو رزق زیادہ دیا گیا ہے وہ ایسے تو نہیں جو زائد رزق کو اپنے غلاموں کی طرف لوٹا دیں تاکہ آقا و غلام سب رزق کے معاملہ میں برابر ہوجائیں۔ کیا پھر وہ اللہ کی نعمتوں کا ہی انکار [٧٠] کرتے ہیں
فہم القرآن : ربط کلام : جس طرح اللہ تعالیٰ موت وحیات کا مالک ہے اسی طرح وہ انسان کا رزق بڑھانے اور اسے کم کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح انسانوں کی زندگی کے مختلف مراحل مقرر کیے ہیں اسی طرح اس نے لوگوں کے درمیان جسمانی، روحانی اور معاشرتی اعتبار سے امتیازات قائم فرمائے ہیں۔ ایسے ہی اس نے معاشی حوالے سے لوگوں کے درمیان فرق قائم کیا ہے۔ تاکہ لوگ ایک دوسرے کی ضرورت بن کر زندگی بسر کریں۔ ایک شخص زمیندار ہے دوسرا اس کا مزارع، ایک کارخانہ دار ہے دوسرا اس کا ور کر۔ ایک مالدار ہے دوسرا اس کا ملازم گویا کہ معاشی اعتبار سے بھی اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ایک دوسرے پر برتری عنایت فرمائی ہے۔ ملازم کے بغیر مالدار کا کاروبار آگے نہیں بڑھ سکتا۔ کاریگر اور ور کر کے بغیر فیکٹری کا پہیہ جام ہوجاتا ہے۔ مزارع کے بغیر زمین میں زراعت نہیں ہو سکتی۔ یہی اسباب رزق کی کمی وبیشی کا سبب ثابت ہوتے ہیں۔ یہاں رزق کے حوالے سے مشرک کو عقیدۂ توحید سمجھانے کی کوشش فرمائی ہے کہ ایک لینڈ لارڈمزارع کو اور کارخانہ دار ور کر کو اپنے کاروبار اور زمین میں حصہ دار بنانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ مگر مشرکانہ ذہن رکھنے والے لوگ فطرت سلیم اور انصاف کے اصولوں کے برخلاف اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات میں دوسروں کو شریک بناکر شرم محسوس نہیں کرتے۔ یہاں ان کی مردہ فطرت کو جگانے کے بعد ان سے سوال کیا گیا ہے کہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو اور اپنے ضمیر سے پوچھو۔ کیا تم اپنے غلاموں، نوکروں اور مزارعوں کو اپنے کاروبار میں شریک کرنے کے لیے تیار ہو؟ یقیناً تم ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہو۔ مگر تم خدا کی خدائی میں زندہ اور مردہ یہاں تک کہ بتوں کو شریک بناتے ہوئے عار محسوس نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ شرک کرنے کی وجہ سے تمہارے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے تم نہ صرف شرک سے اجتناب نہیں کرتے بلکہ شرکیہ عقیدہ کی خاطر جھگڑتے ہو۔ دراصل تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہو۔ اللہ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت عقیدۂ توحید ہے جس سے انسان میں خودداری اور اللہ کے سوا باقی سب سے بے نیازی پیدا ہوتی ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے رزق کے لحاظ سے بعض کو بعض پر برتری دی ہے۔ 2۔ کوئی مالدار اپنے مال میں کسی کو حصہ دار بنانا پسند نہیں کرتا۔ 3۔ اللہ کی نعمتوں کا انکار نہیں کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : کافر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں : 1۔ کافر اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں۔ (النحل :71) 2۔ ہماری آیات کا صرف کافر ہی انکار کرتے ہیں۔ (العنکبوت :49) 3۔ ظالم لوگ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔ (الانعام :33) 4۔ اللہ کی آیات کا انکار کرنے کا بدلا آخرت میں آگ کا گھر ہے۔ (حم السجدۃ :28) 5۔ کیا تم باطل کے ساتھ ایمان لاتے اور اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہو؟ (النحل :72) 6۔ کافر اللہ کی نعمتوں کو پہچانتے ہیں۔ پھر ان کا انکار کرتے ہیں۔ (النحل :83) 7۔ جو بھی اللہ کی نعمت کو تبدیل کرے اس کے لیے سخت عذاب ہے۔ (البقرۃ:211) 8۔ قیامت کے دن ہم انہیں فرموش کردیں گے جس طرح وہ قیامت کی ملاقات کو بھول گئے کیونکہ وہ ہماری آیات کا انکار کرتے تھے۔ (الاعراف :51)