سورة النحل - آیت 61

وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِم مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِن دَابَّةٍ وَلَٰكِن يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے ظلم کی بنا پر پکڑنے لگتا تو زمین پر کوئی جاندار مخلوق باقی نہ رہ جاتی [٥٨] لیکن وہ ایک معین عرصہ تک ڈھیل دیئے جاتا ہے پھر جب وہ مدت آجاتی ہے تو (اللہ کا عذاب ان سے) گھڑی بھر کے لئے بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتا

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات میں کسی کو شریک کرنا اور فرشتوں کو اس کی بیٹیاں قرار دینا بدترین ظلم ہے مگر اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے مطابق ظالموں کی فی الفور گرفت نہیں کرتا۔ کفار، مشرک اور مجرم پیشہ لوگوں کو جب ان کے کفرو شرک اور ان کے مظالم کے بارے میں سمجھایا جائے تو وہ اپنے آپ کو سچاثابت کرنے کے لیے یہ دلیل بھی دیتے ہیں۔ کہ اگر اللہ کو ہمارے عقائد اور اعمال اتنے ہی ناپسند ہیں تو پھر وہ ہماری گرفت کیوں نہیں کرتا؟ بسا اوقات ضعیف الایمان لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں کہ آخر کوئی سبب تو ہے جس کی بنا پر کفر و شرک اور جرائم کے مرتکب لوگوں کو کھلی چھٹی دی گئی ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ایسا نہیں کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور گرفت سے باہر ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت اور مقرر کردہ مدت کی وجہ سے ان لوگوں کو ڈھیل دے رکھی ہے۔ اگر لوگوں کے جرائم اور ان کی عجلت بازی کی و جہ سے اللہ تعالیٰ پکڑنا چاہے تو مجرم تو درکنار کوئی جاندار چیز بھی زمین پر باقی نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور مقرر کردہ مدت کے مطابق انہیں ڈھیل دیے ہوئے ہے۔ جب اس کی گرفت کا وقت آپہنچے گا تو وہ ایک لمحہ بھی آگے پیچھے نہیں ہو سکے گا۔ (عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ بْنِ رِبْعِیٍّ (رض) قَالَ مُرَّ عَلَی النَّبِیِّ () بِجَنَازَۃٍ قَالَ مُسْتَرِیْحٌ وَّمُسْتَرَاحُ مِنْہُ قَالُوْا یَا رَسُول اللّٰہِ ! مَا الْمُسْتَرِیْحُ والْمُسْتَرَاحُ مِنْہُ قَالَ الْمُؤْمِنُ اسْتَرَاحَ مِنْ نَصَبِ الدُّنْیَا وَأَذَاہَآ إِلٰی رَحْمَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَالْفَاجِرُ اسْتَرَاحَ مِنْہُ الْعِبَادُ وَالْبِلاَدُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَّابُّ )[ رواہ أحمد] ” حضرت ابی قتادہ بن ربعی بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) کے سامنے سے ایک جنازہ گزرا، آپ نے فرمایا آرام پا گیا اور اس سے آرام پا گئے۔ صحابہ کرام (رض) نے عرض کی اے اللہ کے رسول! آرام پا گیا اور آرام پا گئے، سے کیا مراد ہے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا مومن دنیا کے مصائب اور تکلیفوں سے نجات پا کر اللہ کی رحمت کا حق دار بن گیا اور فاسق و فاجر سے لوگ، شہر، درخت اور چوپائے آرام پا گئے۔“