قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ
پھر ان سے پوچھا : ’’اے اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتو! تمہارا کیا معاملہ [٣١] ہے؟‘‘
فہم القرآن : (آیت 57 سے 60) ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت کا عملی ثبوت پیش کیا گیا ہے اور اب حضرت لوط (علیہ السلام) کے واقعہ میں اس کے غضب کی ایک مثال پیش کی جا رہی ہے۔ تاکہ ملائکہ کے نزول کا مطالبہ کرنے والے ملائکہ کے نزول کا پوری طرح فرق سمجھ لیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ملائکہ سے خوشخبری سننے اور اس پر اطمینان کا اظہار کرنے کے بعد ان سے استفسار فرماتے ہیں کہ تمہاری آمد کا اور مقصد کیا ہے؟ ملائکہ نے عرض کیا کہ ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ سوائے حضرت لوط (علیہ السلام) اور اس کی آل کے ان کو عذاب سے بچا لیا جائے گا۔ البتہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی نہیں بچ سکے گی۔ کیونکہ ربِّ ذوالجلال کا یہی فیصلہ ہے کہ وہ تباہ وبرباد ہونے والوں میں شامل ہو۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیویوں کے بارے میں بتلایا گیا ہے کہ وہ دونوں اللہ کے صالح بندوں کی بیویاں ہونے کے باوجود خیانت کی مرتکب تھیں وہ اپنے خاوندوں جو کہ اپنے اپنے وقت میں اللہ کے رسول تھے۔ ان پر ایمان لانے کی بجائے کفر اختیار کیے ہوئے تھیں۔ جب اللہ تعالیٰ کا ان اقوام پر عذاب نازل ہوا تو حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) اپنی بیویوں کو عذاب سے نہ بچا سکے۔ حکم ہوا کہ تم دونوں عورتیں جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔ ان کے مقابلے میں ایک بدترین انسان اور حکمران فرعون کی بیوی جنت میں جائے گی بلکہ موت سے پہلے اسے جنت کا نظارہ کروا گیا۔ یہاں حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کا انجام ذکر کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی بھی ان کے ساتھ تباہی کے گھاٹ اتر گئی۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کَانَتْ خِیَانَتُہُمَا أنَّہُمَا کَانَتَا عَلٰی عَوْرَتَیْہِمَا فَکَانَتْ اِمْرَأۃُ نُوْحٍ تَطْلَعُ عَلٰی سِرِّ نُوْحٍ، فَإذَا آمَنَ مَعَ نُوْحٍ أحَدٌ أخْبَرَتِ الْجَبَابِرَۃَ مِنْ قَوْمِ نُوْحٍ بِہِ، وَأمَّا اِمْرَأۃُ لُوْطٍ فَکَانَتْ إذَا أضَافَ لُوْطُ أحَدًا أخْبَرَتْ بِہِ أہْلَ الْمَدِیْنَۃِ مِمَّنْ یَّعْمَلُ السُّوءَ )[ ابن کثیر] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت نوح اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیویوں کی خیانت یہ تھی کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی ان کے راز فاش کرتی تھی۔ جب کوئی شخص حضرت نوح (علیہ السلام) پر ایمان لے آتا تو وہ اس کے بارے میں ظالموں کو بتاتی دیتی اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی ان کے مہمانوں کے بارے میں شہر کے برے لوگوں کو خبر دیتی تھی۔“ اللہ تعالیٰ کے ہاں کردار : ﴿ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا امْرَأَۃَ نُوْحٍ وَّامْرَأَۃَ لُوْطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتَاہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللَّہِ شَیْئًا وَقِیلَ ادْخُلَا النَّارَمَعَ الدَّاخِلِیْنَ وَضَرَبَ اللَّہُ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا امْرَأَۃَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ﴾ [ التحریم :10] ” اللہ تعالیٰ کافروں کے لیے نوح اور لوط کی بیویوں کو بطور مثال بیان فرماتا ہے۔ وہ دونوں ہمارے بندوں میں سے دو صالح بندوں کے نکاح میں تھیں مگر انہوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی تو وہ اللہ کے مقابلہ میں ان دونوں کے کچھ کام نہ آسکے۔ اور دونوں عورتوں سے کہہ دیا گیا کہ جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔ اہل ایمان کے معاملہ میں اللہ فرعون کی بیوی کی مثال پیش کرتا ہے جب اس نے دعا کی اے میرے رب میرے لیے اپنے ہاں جنت میں ایک گھر بنا دے۔ مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچا اور ظالم قوم سے مجھے نجات عطا فرما۔“ مسائل: 1۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی کے سوا، ان کے ایمان دار ساتھیوں کو بچا لیا گیا۔ تفسیر بالقرآن : حضرت لوط کی بیوی کا کردار اور انجام : 1۔ لوط کی بیوی کے سوا اللہ نے انہیں نجات دی۔ (الحجر :60) 2۔ ہم نے لوط اور اس کے اہل کو نجات دی مگر لوط کی بیوی پر عذاب مسلط ہوا۔ (الاعراف :83) 3۔ نوح اور لوط کی بیویوں نے خیانت کی اللہ انہیں جہنم میں داخل کرے گا۔ (التحریم :10) 4۔ ہم نے لوط اور اس کے اہل کو نجات دی مگر اس کی بیوی پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی۔ (النمل :57)