نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
(اے نبی) ! میرے بندوں کو خبر دے دیجئے کہ میں معاف کردینے والا اور رحم کرنے والا ہوں
فہم القرآن : (آیت 49 سے 50) ربط کلام : اس سے پہلے جنتیوں کا انعام اور جہنمیوں کے انجام کا ذکر ہوا ہے۔ اب اسی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے اپنی دو صفات کا تذکرہ فرمایا۔ متقین اور ان کے انعامات کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے نہایت مشفقانہ انداز میں فرمایا اے نبی (ﷺ) ! میرے بندوں کو فرما دیجئے کہ میں معاف کرنے والا نہایت مہربان ہوں اور انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جو میری سر کشی و نافرمانی کرے گا تو میرا عذاب بھی شدید ہوا کرتا ہے۔ بخشش اور مہربانی کا ذکر کرنے کے ساتھ شدید عذاب کا اس لیے بیان کیا ہے تاکہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی بخشش اور اس کی رحمت کو پیش نظر رکھ کر جان بوجھ کر سرکشی اور نافرمانی کا راستہ اختیار نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کے لیے نہایت مہربان ہے اور ظالموں کے لیے جبار، قہار اور سخت عذاب دینے والا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) قَالَ لَمَّا قَضَی اللَّہُ الْخَلْقَ کَتَبَ عِنْدَہُ فَوْقَ عَرْشِہِ، إِنَّ رَحْمَتِی سَبَقَتْ غَضَبِی) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ تَعَالَی ﴿وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِینَ﴾] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جب اللہ نے مخلوقات کو پیدا کرنے کا فیصلہ فرمایا تو اس وقت اللہ کے عرش پر لکھا ہوا تھا بے شک میری رحمت میرے غضب سے سبقت لے جا چکی ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إِنَّ لِلَّہِ مائَۃَ رَحْمَۃٍ أَنْزَلَ مِنْہَا رَحْمَۃً وَاحِدَۃً بَیْنَ الْجِنِّ وَالإِنْسِ وَالْبَہَاءِمِ وَالْہَوَامِّ فَبِہَا یَتَعَاطَفُونَ وَبِہَا یَتَرَاحَمُونَ وَبِہَا تَعْطِفُ الْوَحْشُ عَلَی وَلَدِہَا وَأَخَّرَ اللَّہُ تِسْعًا وَتِسْعِینَ رَحْمَۃً یَرْحَمُ بِہَا عِبَادَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ )[ رواہ مسلم : باب فِی سَعَۃِ رَحْمَۃِ اللَّہِ تَعَالَی وَأَنَّہَا سَبَقَتْ غَضَبَہُ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا بے شک اللہ کی رحمت کے سو حصے ہیں ان میں سے ایک حصے کو اللہ نے جنوں، انسانوں، چوپاؤں اور پرندوں میں تقسیم فرمایا جس کے ساتھ وہ آپس میں شفقت اور رحم کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ وحشی جانور بھی اپنی اولاد پر رحم کرتے ہیں اور اللہ نے اپنی رحمت کے ننانوے حصے اپنے پاس رکھے ہیں جن کے ساتھ اللہ قیامت کے دن رحم و کرم فرمائے گا۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَتْ قُرَیْشٌ للنَّبِیِّ (ﷺ) ادْعُ لَنَا رَبَّکَ أَنْ یَجْعَلَ لَنَا الصَّفَا ذَہَباً وَنُؤْمِنَ بِکَ قَالَ وَتَفْعَلُونَ قَالُوا نَعَمْ قَالَ فَدَعَا فَأَتَاہُ جِبْرِیلُ فَقَالَ إِنَّ رَبَّکَ عَزَّ وَجَلَّ یَقْرَأُ عَلَیْکَ السَّلاَمَ وَیَقُولُ إِنْ شِئْتَ أَصْبَحَ لَہُمُ الصَّفَا ذَہَباً فَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ مِنْہُمْ عَذَّبْتُہُ عَذَاباً لاَ أُعَذِّبُہُ أَحَداً مِنَ الْعَالَمِینَ وَإِنْ شِئْتَ فَتَحْتُ لَہُمْ بَاب التَّوْبَۃِ وَالرَّحْمَۃِ قَالَ بَلْ بَاب التَّوْبَۃِ وَالرَّحْمَۃِ )[ مسند احمد] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں قریش نے نبی (ﷺ) سے مطالبہ کیا کہ آپ ہمارے لیے صفا پہاڑی کو سونے کا بنادیں تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے تو آپ نے فرمایا کیا تم ایسا کرو گے ؟ انھوں نے کہا ہاں۔ تو آپ (ﷺ) کے دعا فرمانے پر جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور عرض کی آپ کے رب نے آپ کو سلام کہا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو ہم ان کے لیے صفا پہاڑی کو سونے کا بنادیں گے لیکن جو اس کے بعد کفر کرے گا میں اسے ایسے عذاب میں مبتلا کروں گا کہ اس سے پہلے کسی کو ایسا عذاب نہ ہوگا اور اگر آپ چاہیں تو میں ان کے لیے توبہ اور رحمت کا دروازہ کھول دیتا ہوں تو آپ نے فرمایا کہ اللہ ان کے لیے رحمت اور توبہ کا دروازہ کھول دے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔ 2۔ اللہ کا عذاب بڑا درد ناک ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے عذاب کی جھلکیاں : 1۔ میرے بندوں کو بتا دیں یقیناً میں بخشنے، رحم کرنے والا ہوں۔ میرا عذاب بڑا درد ناک ہے۔ (الحجر : 49۔50) 2۔ اچھی طرح جان لو اللہ بہت سخت سزا دینے والا، بڑی مغفرت اور رحم فرمانے والا ہے۔ (المائدۃ:98) 3۔ اللہ گناہوں کو بخشنے اور توبہ قبول کرنے والا ہے، سخت سزا دینے والا، قدرت والا ہے۔ (المومن :3) 4۔ اللہ ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا یقیناً وہ بخشنے والا، رحم والا ہے۔ (التوبۃ:99) 5۔ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے اور ظالموں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ (الدہر :31)