يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ ذَٰلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ ۗ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اے ایمان والو! قتل کے مقدمات میں تم قصاص [٢٢٢] فرض کیا گیا ہے اگر قاتل آزاد ہے تو اس کے بدلے آزاد ہی قتل ہوگا۔ غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت ہی قتل کی جائے گی۔ پھر اگر قاتل کو اس کے (مقتول) بھائی (کے قصاص میں) سے کچھ معاف [٢٢٣] کردیا جائے تو معروف طریقے سے (خون بہا) کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل یہ رقم بہتر طریقے سے (مقتول کے وارثوں کو) ادا کردے۔ یہ (دیت کی ادائیگی) تمہارے رب کی طرف سے رخصت اور اس کی رحمت ہے اس کے بعد جو شخص زیادتی کرے [٢٢٤] اسے درد ناک عذاب ہوگا۔
فہم القرآن : (آیت 178 سے 179) ربط کلام : متقین کی صفات میں یہ بات بھی شامل ہے اور ہونی چاہیے کہ معاشرے کو جرائم سے بچانے کے لیے وہ اسلام کا حدود و قصاص کانظام نافذ کریں یہی سمجھ داری، تقو ٰی کا تقاضا اور اس طرح ہی جرائم سے بچا جاسکتا ہے۔ اسلام کے نظام عدل سے پہلے دنیا میں قانون کے وجود اور اس کے نفاذ میں کئی قسم کے اختلافات، تضادات اور امتیازات پائے جاتے تھے۔ یہودیوں کا نقطۂ نگاہ یہ تھا اور ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہیے۔ ان کے ہاں کمزور کے لیے معافی کی کوئی صورت نہیں۔ ان کے برعکس انجیل کی تعلیم یہ ہے کہ اگر کوئی زیادتی کرے تو اس سے بدلہ لینے کی بجائے اپنے چہرے کا دوسرا رخ پیش کردینا چاہیے۔ اس طرح یہود میں سختی ہی سختی اور عیسائیت میں نرمی ہی نرمی کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ اسلام نے دونوں قسم کی فلاسفی کے درمیان راستہ اختیار کیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کو عمدًا قتل کرتا ہے تو مقتول کے وارثوں کو تین باتوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ اس کے لیے حکومت وقت کافرض ہے کہ وہ مقتول کے ورثاء کو ایسا ماحول فراہم کرے۔ جس میں وہ تینوں میں سے کوئی ایک بات اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ پر کوئی دباؤ محسوس نہ کریں۔ (1) قتل کے بدلے قتل (2) قتل کے بدلے دیت (3) قاتل کو معاف کرنا۔ یہ بات ذہن میں راسخ ہونی چاہیے کہ یہ کام عدالت یا ذمہ دار اتھارٹی کے ذریعے ہونا ضروری ہے۔ ورنہ اچھے ثمرات کی بجائے مضرّات کا زیادہ خدشہ ہے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ” کُتِبَ عَلَیْکُمْ“ کے الفاظ میں مضمر ہے۔ جس کی روشنی میں نبی محترم {ﷺ}نے ورثاء کے لیے مجرم کو از خود سزا دینے کی اجازت نہیں دی۔ (عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْدٍ {رض}أَنَّ رَجُلًا أَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ {ﷺ}فَقَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَرَأَیْتَ رَجُلًا رَأٰی مَعَ امْرَأَتِہٖ رَجُلًا أَیَقْتُلُہٗ فَتَقْتُلُوْنَہٗ أَمْ کَیْفَ یَفْعَلُ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ مَا ذُکِرَ فِی الْقُرْآنِ مِنَ التَّلَاعُنِ فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ {ﷺ}قَدْ قُضِیَ فِیْکَ وَفِی امْرَأَتِکَ قَالَ فَتَلَاعَنَا وَأَنَا شَاھِدٌ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ {ﷺ}فَفَارَقَھَا فَکَانَتْ سُنَّۃً أَنْ یُفَرَّقَ بَیْنَ الْمُتَلَاعِنِیْنَ وَکَانَتْ حَامِلًا فَأَنْکَرَ حَمْلَھَا وَکاَنَ ابْنُھَا یُدْعٰی إِلَیْھَا ثُمَّ جَرَتِ السُّنَّۃُ فِی الْمِیْرَاثِ أَنْ یَرِثَھَا وَتَرِثُ مِنْہُ مَا فَرَضَ اللّٰہُ لَھَا) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب والخامسۃ أن لعنۃ اللّٰہ الخ] ” حضرت سھل بن سعد {رض}بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ {ﷺ}کے پاس آکرکہنے لگا۔ اے اللہ کے رسول ! ایسے آدمی کے متعلق کیا خیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی آدمی کو پاتا ہے کیا وہ اسے قتل کردے تو آپ اسے قتل کردیں گے یا وہ کیا کرے ؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں لعان کے متعلق آیات نازل فرمائیں۔ اللہ کے رسول {ﷺ}نے اسے فرمایا : تیرے اور تیری بیوی کے متعلق فیصلہ ہوچکا ہے سہل {رض}کہتے ہیں پھر ان دونوں نے لعان کیا اور میں رسول اللہ {ﷺ}کے پاس موجود تھا۔ سنت طریقہ یہ ہے کہ لعان کرنے والوں کے درمیان علیحدگی کردی جائے۔ وہ عورت حاملہ تھی اس کے خاوند نے اس کے حمل کا انکار کیا پھر اس کا بیٹا اس عورت کی طرف منسوب کیا جاتا تھا۔ پھر میراث میں یہ طریقہ جاری کیا گیا کہ وہ اس کا وارث بنے گا اور وہ اس کی وارث بنے گی جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کیا ہے۔“ جہاں تک پہلی اقوام کے قانون کی تنفیذ کا تعلق ہے۔ انہوں نے قانون کو موم کی ناک بنا رکھا تھا کہ حسب ضرورت جس طرف چاہا اس کا رخ موڑ دیا۔ اگر بڑے آدمی سے جرم سر زد ہوتا تو ان کی کوشش ہوتی کہ اس پر قانون کا اطلاق نہ ہونے پائے یا اس کے بدلے اس کے غلام کو سزا وار ٹھہرایا جائے۔ کوئی غیر مؤثر آدمی جرم کرتا تو اس پر قانون کا شکنجہ اس طرح کس دیا جاتا کہ نکلنے نہ پائے کی فضا پید اکر دی جاتی۔ آپ {ﷺ}نے اس عملی تضاد کے بھیانک نتائج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ پہلی اقوام اس وجہ سے تباہ ہوئیں کہ وہ عدل نہیں کرتی تھیں : ( عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ قُرَیْشًا أَھَمَّھُمْ شَأْنُ الْمَرْأَۃِ الْمَخْزُوْمِیَّۃِ الَّتِیْ سَرَقَتْ فَقَالُوْا وَمَنْ یُکَلِّمُ فِیْھَا رَسُوْلَ اللّٰہِ {ﷺ}قَالُوْا وَمَنْ یَجْتَرِ ئُ عَلَیْہِ إِلَّا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ حِبُّ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَکَلَّمَہٗ أُسَامَۃُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {ﷺ}أَتَشْفَعُ فِیْ حَدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا أَھْلَکَ الَّذِیْنَ قَبْلَکُمْ کَانُوْا إِذَا سَرَقَ فِیْھِمُ الشَّرِیْفُ تَرَکُوْہُ وَإِذَا سَرَقَ فِیْھِمُ الضَّعِیْفُ أَقَامُوْاعَلَیْہِ الْحَدَّ وََأَیْمُ اللّٰہِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَھَا) [ رواہ البخا ری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب حدیث الغار] ” حضرت عائشہ {رض}بیان کرتی ہیں کہ قریش اس مخزومی عورت کے متعلق بڑے فکر مند ہوئے جس نے چوری کی تھی انہوں نے سوچا کہ اس معاملے میں اللہ کے رسول سے کون بات کرسکتا ہے؟ انہوں نے کہا یہ کام اسامہ بن زید {رض}کے سوا اور کوئی نہیں کرسکتا وہ اللہ کے رسول کا محبوب ہے۔ چنانچہ اسامہ {رض}نے اللہ کے رسول سے عرض کی تو آپ نے فرمایا : کیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے متعلق سفارش کرتے ہو؟ پھر آپ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا : یقیناً تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے تباہ ہوئے کہ جب ان میں کوئی بڑاچوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اگر کمزور چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کرتے۔ اللہ کی قسم ! اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔“ قرآن مجید دو ٹوک انداز میں قانون کے نفاذ میں بے انصافی کا تدارک کررہا ہے چنانچہ آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت ہی قتل کی جائے گی اس کے بر خلاف کرنے کی ہرگز اجازت نہ ہوگی۔ قاتل کی جو بھی حیثیت ہو بدلے میں اسے ہی قتل کیا جائے گا۔ آپ نے اس امتیاز کو ختم کرنے کے اقدامات کے ساتھ قانون کے نفاذ کو یقینی بنایا تاکہ قرآن کی منشا کے مطابق زندگی عدل وانصاف کے اصولوں پر استوار ہوسکے۔ اس سے مجرموں کے حوصلے پست اور مظلوموں میں احساس زندگی پیدا ہونے کے ساتھ معاشرہ جرم درجرم کے بدترین عمل سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ یہی معاشرے کی بقا اور زندگی کی روح ہے۔ مظلوموں کو معاف کردینے کا حق دے کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اسلام صرف سزاؤں کے ذریعے جرائم کی بیخ کنی کا تصور پیش نہیں کرتا۔ بلکہ اس نے غیرعادی مجرموں کے لیے معافی کا راستہ کھول رکھا ہے کہ سہواً یا غیر ارادی طور پر کسی سے جرم سر زد ہو تو اسے معاف کردینے کے نتائج بدلہ لینے سے بہترہوا کرتے ہیں۔ معافی کا اختیار حکومت کو نہیں بلکہ یہ بھی مظلوم کے ورثاء کا حق ہے۔ اگر وہ معاف کردیں تو فریق ثانی کو حتی المقدور مظلوموں کے ساتھ بھر پور طریقے سے مالی اور اخلاقی تعاون کرنا چاہیے تاکہ ان کا زخم جلد از جلد مندمل ہوسکے۔ یہاں رحمت اور تخفیف کے الفاظ بیان فرما کر اشارہ کیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو ” کُتِبَ“ کے حکم کی فرضیت کو مِنْ وَعَنْ قائم رکھتے۔ لیکن یہ اس کی طرف سے رحمت اور نرمی کا مظاہرہ ہے کہ اس نے تمہیں معاف کردینے کا اختیار دے کر حالات کی سنگینی کو حسن سلوک کے ذریعے سد ھارنے کا اختیار عطا کیا ہے۔ البتہ جو اس کے بعد بھی زیادتی کرے گا اس کے لیے ہولناک عذاب ہوگا۔ مسائل : 1۔ مقتول کے ورثاء معاف کردیں تو ان کے ساتھ پھر بھی احسان کرنا ہے۔ 2۔ آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت قتل کی جائے گی۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اپنے احکام میں آسانی پیدا کرتا ہے۔ 4۔ جو قصاص اور دیت لینے دینے کے بعد زیادتی کرے اس کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ 5۔ قتل کا قصاص لینے میں زندگی کی بقاء ہے۔