سورة الحجر - آیت 36

قَالَ رَبِّ فَأَنظِرْنِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

وہ کہنے لگا : ’’میرے پروردگار! پھر مجھے اس دن تک (زندہ رہنے کی) مہلت دے دے جب لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے‘‘

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 36 سے 40) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ابلیس کی درخواست کہ مجھے مہلت دیں میں ابن آدم کو گمراہ کروں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہمیشہ ہمیش محروم ہونے کے باوجود ابلیس نے ربِّ کریم کی بارگاہ میں درخواست پیش کی کہ اے میرے رب! مجھے قیامت تک زندہ رکھ اور مہلت دے کہ میں ابن آدم کو گمراہ کرتا رہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی درخواست قبول کرتے ہوئے فرمایا تجھے اس دن تک مہلت دی جاتی ہے جس کا علم میرے سوا کسی کو نہیں ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ رب کریم کی شفقت و مہربانی کو پیش نظر رکھتے ہوے ابلیس اللہ تعالیٰ سے معافی کا خواستگار ہوتا۔ مگر ابلیس معافی کا خواستگار ہونے کے بجائے مزید سر کشی اور گستاخی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے آدم کی وجہ سے رسوا کیا ہے۔ اس لیے میں زمین پر جا کر آدم اور اس کی اولاد کو خوش فہمیوں اور فریب کاریوں کے ذریعے گمراہ کروں گا۔ البتہ تیرے مخلص بندے میرے چنگل سے بچ جائیں گے۔ میں ان کو گمراہ نہیں کرسکوں گا۔ یعنی مستقل طور پر شیطان اللہ کے مخلص بندوں کو گمراہ نہیں کرسکتا۔ مخلص کا معنی ہے جو اللہ تعالیٰ پر بلا شرکت غیر ایمان لائے اور اللہ تعالیٰ کی اخلاص کے ساتھ عبادت کرے اور اس کے رسول کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی بسر کرے۔ ابلیس کو مہلت دینے کی حکمت یہ ہے تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کو آزمایا جائے۔ (عَنْ أَبِیْ سَعَیْدٍ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ () قَالَ إِنَّ الشَّیْطَانَ قَالَ وَعِزَّتِکَ یَا رَبِّ لَا أَبْرَحُ أَغْوِیْ عِبَادَکَ مَا دَامَتْ أَ رْوَاحُہُمْ فِیْ أَجْسَادِہِمْ، فَقَال الرَّبُّ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَعِزَّتِیْ وَجَلاَلِیْ لاَ أَزَالُ أَغْفِرُ لَہُمْ مَا اسْتَغْفَرُوْنِیْ )[ رواہ الحاکم فی المستدرک : کتاب التوبۃ والانابۃ ] ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں بے شک رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا شیطان نے کہا اے میرے رب! تیری عزت کی قسم میں ہمیشہ تیرے بندوں کو گمراہ کرتا رہوں گا جب تک ان کے جسموں میں روحیں موجود ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا مجھے میری عزت اور جلال کی قسم! میں ہمیشہ انہیں معاف کرتا رہوں گا جب تک یہ مجھ سے بخشش طلب کرتے رہیں گے۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ () کَانَ مَعَ إِحْدٰی نِسَآءِہٖ فَمَرَّ بِہٖ رَجُلٌ فَدَعَاہُ فَجَآءَ فَقَالَ یَا فُلاَنُ ہٰذِہٖ زَوْجَتِیْ فُلاَنَۃُ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَنْ کُنْتُ أَظُنُّ بِہٖ فَلَمْ أَکُنْ أَظُنُّ بِکَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () إِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِیْ مِنَ الإِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ) [ رواہ مسلم : باب تَحْرِیمِ الْخَلْوَۃِ بالأَجْنَبِیَّۃِ وَالدُّخُولِ عَلَیْہَا] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں ایک دن نبی کریم (ﷺ) اپنی کسی بیوی کے ساتھ کھڑے تھے ایک آدمی آپ کے قریب سے گزرا، آپ نے اسے آواز دے کر کہا اے فلاں یہ میری بیوی ہے۔ اس نے عرض کی اے اللہ کے رسول ! میں آپ کے بارے میں کس طرح شک کر سکتاہوں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا یقیناً شیطان انسان کے جسم میں اس طرح گردش کرتا ہے جس طرح خون گرتا ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو قیامت تک کے لیے مہلت دے رکھی ہے۔ 2۔ شیطان نے انسانوں کو گمراہ کرنے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔ 3۔ اللہ کے مخلص بندے شیطان کے جال سے محفوظ رہیں گے۔