سورة ابراھیم - آیت 44

وَأَنذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُولُ الَّذِينَ ظَلَمُوا رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ ۗ أَوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُم مِّن قَبْلُ مَا لَكُم مِّن زَوَالٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

(اے نبی)! آپ لوگوں کو اس [٤٣] دن سے ڈرائیے جب عذاب انھیں آلے گا تو اس دن ظالم کہیں گے: ہمارے پروردگار! ہمیں تھوڑی سی مدت اور مہلت دے دے۔ ہم تیری دعوت قبول کریں گے اور تیرے رسولوں کی پیروی کریں گے'' (اللہ تعالیٰ انھیں جواب دے گا) کیا تم وہی لوگ نہیں ہو جو اس سے پہلے یہ قسمیں [٤٤] کھایا کرتے تھے کہ تمہیں کبھی زوال آئے گا ہی نہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : قیامت کی ہو لناکیاں بیان کرنے کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ آپ (ﷺ) قیامت کا انکار کرنے والوں کو ڈرائیں اور اس کی حقیقت بتلائیں۔ دنیا پرستی میں مبتلا ہونے والے لوگ آخرت کو اس قدربھول جاتے ہیں کہ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا اور انسان کو محض کھیل تماشے کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اگر دنیا کھیل تماشا ہوتی تو ہم یہ تماشا اپنے پاس کرتے۔ (الانبیاء : 16۔17) یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے انسان جو کچھ بوئے گا مرنے کے بعد وہی کچھ اپنے سامنے پائے گا۔ اس حقیقت کے باوجود دنیا پرست لوگ آخرت کا انکار کرتے ہیں اور وہ اس کے لیے اتنے بوسیدہ دلائل دیتے ہیں کہ اگر وہ خود معمولی ساغور کریں تو ان کے دلائل میں بھی آخرت کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ آخرت کا انکار کرنے والا ایک شخص سرور دو عالم (ﷺ) کے سامنے ایک بوسیدہ ہڈی اپنے ہاتھ سے مسل کر کہتا ہے کہ اے محمد! بتلاؤ یہ ہڈی مٹی بن چکی ہے اسے کون زندہ کرے گا؟ قرآن مجید نے اس کا جواب دیا کہ کیا آخرت کے انکار کرنے والے نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ ہم نے اسے ایک نطفہ سے پیدا کیا ہے جس سے بڑا ہو کر وہ اپنے رب کے ساتھ جھگڑا کرتا ہے اور اپنی تخلیق بھول کر ہمارے سامنے بوسیدہ ہڈی کی مثال پیش کر کے کہتا ہے کہ اسے کون زندہ کرے گا اے پیغمبر! انہیں فرمائیں اسے وہی خالق زندہ کرے گا جس نے اسے پہلی بار پیدا کیا تھا جو ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ ( یٰس : 70تا77) قیامت کا انکار کرنے والوں کو یہ کہہ کر بھی لاجواب کیا گیا ہے کہ یہ بتاؤ تمہیں پہلی دفعہ پیدا کرنا مشکل تھا یا دوسری مرتبہ پیدا کرنا مشکل ہے۔ ( بنی اسرائل :51) پھر دوٹوک الفاظ میں فرمایا کہ آپ (ﷺ) انہیں کہیں کہ تم لوہا بن جاؤ یا پتھر ہوجاؤ یا تمہارے دل میں جو خیال آسکتا ہے اس سے بھی کوئی بڑی مخلوق بن جاؤ تمہیں وہی ذات پیدا کرے گی جس نے تمھیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا۔ یہ دلائل سننے کے باوجود نفرت کی بنا پر سر ہلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ کب ہوگا انہیں فرمائیں ہوسکتا ہے کہ قیامت عنقریب برپا ہوجائے۔ ( بنی اسرائیل : 49تا51) غور فرمائیں کہ مرنے کے بعد جی اٹھنے کے قرآن مجید نے کس قدر طبعی اور ٹھوس دلائل دیے ہیں لیکن اس کے باوجود قیامت کے منکرہٹ دھرمی کی بنا پر قسمیں کھایا کرتے تھے کہ یہ دنیا کبھی ختم نہیں ہوگی۔ اور ہمیں کبھی زوال نہیں آئے گا۔ کوئی طاقت ہمیں زندہ نہیں کرسکتی۔ اس باطل عقیدہ کی تردید یہاں یہ کہہ کر کی گئی ہے۔ اے پیغمبر! انہیں سمجھائیں اور ڈرائیں کہ جب اللہ کا عذاب یا قیامت آئے گی تم دھاڑیں مار مار کر فریادیں کرو گے کہ ہمارے رب ہمیں تھوڑی سی مہلت دیجئے تاکہ ہم تیری دعوت کو قبول کر کے رسول کی فرمانبرداری کریں لیکن اس وقت مہلت دینے کے بجائے یہ کہا جائے گا کہ کیا تم وہی ظالم نہیں ہو جو قسمیں کھا کھا کر آخرت کا انکار کرتے اور کہتے تھے کہ اس دنیا نے ہمیشہ رہنا ہے اور اسے کبھی زوال نہیں آئے گا۔ مسائل: 1۔ کفار قیامت کے دن کہیں گے اے رب ہمیں مہلت دے ہم تیری بات مانیں گے اور تیرے رسول کی پیروی کریں گے۔ تفسیر بالقرآن : جہنم میں جہنمیوں کی فریادیں : 1۔ اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی دیر کے لیے مہلت دے ہم تیری دعوت کو قبول اور تیرے رسول کی بات کو تسلیم کریں گے۔ (ابراہیم :44) 2۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ:12) 3۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر :37) 4۔ اے ہمارے رب! ہمیں یہاں سے نکال اگر دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المومنون :107)