الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ ۚ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ
اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے بڑھاپے میں اسمٰعیل اور اسحٰق عطا کئے۔ بلاشبہ میرا پروردگار دعا سنتا ہے
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں ہوئے مزید مانگتے ہیں۔ حضرت ابراہیم کے خاندان کا مختصر تعارف : حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کے بارہ بیٹے اور ایک بچی تھی۔ جس کا نام مؤرخین نے بشامہ لکھا ہے۔ آپ کے بارہ بیٹوں کے نام 1۔ نیابوط، جن کو عرب نابت کہتے ہیں۔ 2۔ قید ار حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے اس صاحبزادے نے بڑی شہرت حاصل کی نبی اکرم (ﷺ) اس قیدار کی نسل عدنان سے پیدا ہوئے۔ 3۔ ادبایل 4۔ بمشام 5۔ سمع 6۔ دومہ 7۔ مسا 8۔ حدود 9۔ یلتماد 10۔ جسطور 11۔ نفیس 12۔ قدمہ (توراۃ پ25) حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سرورِدو عالم (ﷺ) کے سوا کوئی نبی نہیں ہوا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تیسری بیوی اور اولاد : حضرت سارہ کے انتقال کے بعد آپ نے حضرت قطورا سے نکاح کیا۔ جناب شعیب (علیہ السلام) کا نسب انہی سے ملتا ہے۔ حضرت قطورا سے اولاد : آپ کے بطن سے چھ لڑکے پیدا ہوئے جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ 1۔ زمران 2۔ مقسان 3۔ مدیان 4۔ مدان 5۔ اسباق 6۔ سوخ بنی قطورا میں اہل مدین اور اصحاب الایکہ آتے ہیں۔ جناب شعیب (علیہ السلام) کا تعلق اسی شاخ سے ہے۔ زیادہ مشہور حضرت سارہ اور حضرت ہاجرہ (رض) ہیں اور انہی کے بیٹے اسحاق (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) کو نبوت سے نوازا گیا اور ان کو شہرت دوام حاصل ہوئی۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت : تمام مؤرخین نے تحریر فرمایا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کی خوشخبری دی گئی تو آپ کی عمر سو سال اور آپ کی زوجہ محترمہ حضرت سارہ علیہا السلام کی عمر نوے سال تھی۔ قرآن مجید نے اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کا متعدد مقامات پر ذکر فرمایا ہے۔ فرشتے انسانوں کی شکل میں جناب خلیل (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے۔ آپ ان کی ضیافت کے لیے ایک بچھڑابھون لائے لیکن انسانی شکل میں آنے والے ملائکہ کھانے کی طرف متوجہ نہ ہوئے۔ تب حضرت نے اپنے آپ میں ایک خوف سا محسوس کیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ کیفیت دیکھ کر فرشتوں نے اپنی آمد کا مقصد بیان کرتے ہوئے انہیں اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کی خوشخبری دی اور اس کے ساتھ ہی پوتے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی خبر بھی دی۔ ﴿وَلَقَدْ جَآءَ تْ رُسُلُنَآ إِبْرَاہِیم بالْبُشْرٰی قَالُوْا سَلَامًا قَالَ سَلَامٌ فَمَا لَبِثَ أَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ فَلَمَّا رَاآی أَیْدِیَہُمْ لَا تَصِلُ إِلَیْہِ نَکِرَہُمْ وَأَوْجَسَ مِنْہُمْ خِیْفَۃً قَالُوْا لَا تَخَفْ إِنَّآ أُرْسِلْنَا إِلٰی قَوْمِ لُوْطٍ ﴾[ ھود : 69، 70] ” جب ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس ہمارے فرشتے خوشخبری لے کر پہنچے تو فرشتوں نے عرض کیا۔ اے ابراہیم آپ پر سلام ہو۔ ابراہیم نے جواب میں کہا تم پر بھی سلام ہو۔ پھر کچھ دیر نہ لگائی کہ ایک بھنا ہوا بچھڑا ضیافت کے لیے لے آئے۔ مگر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھتے تو وہ ان سے مشتبہ ہوگئے اور دل میں ان سے خوف محسوس کیا۔ فرشتوں نے کہا آپ ڈریں نہیں ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں۔“ بشارت سن کر حضرت سارہ علیہا السلام مسکرائیں : ” اور آپ کی بیوی (آپ کے) پاس کھڑی تھی۔ وہ یہ سن کر ہنس پڑی، پھر ہم نے اس کو اسحاق اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوشخبری سنائی۔ اس نے کہا اف! کیا اب میرے ہاں بچہ ہوگا۔ جب کہ میں نہایت بوڑھی ہوچکی ہوں۔ اور میرا خاوند بھی بوڑھا ہوچکا ہے۔ یہ تو عجیب بات ہے۔ فرشتوں نے کہا۔ کیا اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو۔ اے ابراہیم کے گھر والو! تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہیں۔ یقیناً اللہ نہایت تعریف والا اور بلند شان کا مالک ہے۔“ ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمان گرامی : ” اے نبی! آپ ان کو ابراہیم کے معزز مہمانوں کا واقعہ سنائیں۔ جب وہ آئے ابراہیم کے پاس اور کہا سلام ہو تم پر تو ابراہیم نے کہا ہمیں تو آپ سے ڈر لگتا ہے فرشتے کہنے لگے۔ آپ ڈریں نہیں! ہم آپ کو ذی علم لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں۔ ابراہیم فرمانے لگے۔ کیا آپ اس بڑھاپے میں مجھے اولاد کی بشارت دے رہے ہیں۔ یہ کیسی بشارت دے رہے ہو؟“ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے : ” فرشتے کہنے لگے ہم آپ کو برحق خوشخبری دے رہے ہیں۔ آپ کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ابراہیم نے کہا۔ اپنے رب کی رحمت سے تو گمراہ لوگ ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔“ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تو اظہار تفصیل کے لیے سوال کیا تھا ورنہ وہ تو اپنے رب کی رحمت سے مایوس نہیں تھے۔ انھوں نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس تو صرف گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ نبی تو اسباب کی ناپیدگی کے باوجود اپنے رب کی رحمت پر بھرپور بھروسہ کرنے والا ہوتا ہے۔ دوسرا اس واقعہ میں یہ بتانا مقصود ہے اے اہل مکہ! یہ حقیقت جان لو کہ تم فرشتوں کے نزول کا مطالبہ کرتے ہو کہ وہ نازل ہو کر اس نبی کی تائید کریں۔ تب ہم غور کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ یاد رکھو فرشتے یا تو کسی کے لیے رحمت لے کر آتے ہیں یا زحمت! تم سوچ لو تم کس چیز کے مستحق ہو؟ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ بغیر اسباب کے سب کچھ کرسکتا ہے۔ جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاں اولاد کے بظاہر اسباب نہیں تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو بیٹے عنایت فرمائے۔ اسی طرح حالات کتنے ہی نا مساعد کیوں نہ ہوں اللہ اپنے دین کو ضرور بر ضرور سرفراز فرمائے گا۔ اللہ اسباب کا پابند نہیں۔ اسباب اللہ کے حکم کے پابند ہیں۔ ”(فرشتوں) نے اس ابراہیم (علیہ السلام) کو علم والے بچے کی بشارت دی۔ یہ سن کر اس کی بیوی چلاتی ہوئی آگے بڑھی اور اس نے اپنا منہ ڈھانپ لیا۔ اور کہنے لگی بوڑھی بانجھ کو اولاد ہوگی فرشتوں نے کہا، یہی کچھ تمہارے رب نے فرمایا ہے۔ یقیناً وہ حکیم ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔“ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کا قیام : جناب ابراہیم (علیہ السلام) نے تبلیغ دین کے لیے مراکز قائم فرمائے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو شرق اردن، حضرت ذبیح (علیہ السلام) کو حجاز مقدس اور جناب اسحاق (علیہ السلام) جب بڑے ہوئے تو ان کو شام وفلسطین میں تعینات فرمایا۔ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) شام میں پیدا ہوئے اور ایک سو اسی سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ مقام جرون جسے آج کل غرب اردن کہتے ہیں میں آپ ( علیہ السلام) کی آخری آرامگاہ ہے۔ جو فلسطین میں ہے۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی سیرت طیبہ کے چند پہلو قرآن حکیم نے ذکر فرمائے ہیں۔ سورۃ انبیاء میں ارشاد فرمایا، ہم نے ان کو پیشوا بنایا تھا جو ہمارے حکم کے مطابق لوگوں کی راہنمائی کیا کرتے تھے۔ مزید ارشاد ہوا کہ ہم نے ان کی طرف وحی کی جس میں ہدایت کی گئی کہ نیکی کے کام کریں نماز اور زکوٰۃ ادا کریں۔ آخر میں ارشاد فرمایا۔ وہ ہمارے عبادت گزار بندے ہیں۔ ” اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق عطا کیا اور یعقوب اس پر مستزاد کہ ہم نے ہر ایک کو صالح بنایا۔ حضرت ہاجرہ اور آپ ( علیہ السلام) کے فرزند ارجمند : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دوسری رفیقہ حیات حضرت ہاجرہ علیہا السلام ہیں۔ جن کی سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں کو قرآن مجید نے اجاگر کرنے کے ساتھ ان کی زندگی سے وابستہ واقعات اور مقامات کو شعائرا اللہ کہہ کر برائے اجروثواب زیارت گاہ بنا دیا اور ان کے صبرورضا کے واقعات کا اس طرح ذکر کیا کہ رہتی دنیا تک ان کا تذکرہ ہوتا رہے گا۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے فرزند اکبر ہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف تورات میں تحریف ہونے کے باوجود کتاب پیدائش (باب 17، 24، 25) میں موجود ہے۔ اس تصریح کے ساتھ کہ اس وقت جناب خلیل (علیہ السلام) کی عمر 86سال کی تھی جب اسماعیل (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ اور جب حضرت اسحق (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو آپ ( علیہ السلام) کی عمر ننانوے یا سو سال کی تھا۔ تحقیق کے مطابق آپ کنعان میں پیدا ہوئے اور آپ ( علیہ السلام) نے مکہ معظمہ میں 137سال کی عمر میں وفات پائی۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بڑھاپے میں اولاد سے نوازا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہی دعاؤں کو سنتا اور قبول فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مستجاب دعائیں : 1۔ اے اللہ مجھے نیک بچہ عطا فرما۔ (الصٰفٰت : ١٠٠) ٢۔ اے میرے پروردگار اس شہر کو امن والا بنا۔ (ابراہیم :35) 3۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں مسلمان بنا دے اور ہماری نسل میں سے فرمانبردار امت پیدا فرما۔ (البقرۃ:138) 4۔ اے ہمارے رب مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا۔ اے ہمارے رب میری دعا قبول فرما۔ (ابراہیم :40) 5۔ اے ہمارے پروردگار میں نے اپنی اولاد کو بے آب و گیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے قریب ٹھہرایا ہے تاکہ وہ نماز قائم کریں لوگوں کے دل ان کی طرف مائل فرما دے اور انھیں پھلوں کا رزق عطا فرما۔ (ابراہیم :37) 6۔ اے اللہ اس شہر کو امن والا بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے محفوظ فرما۔ (ابراہیم :35) 7۔ اے پروردگار ! مجھے علم و دانش عطا فرما اور نیکوکاروں میں شامل فرما۔ (الشعراء :83) 8۔ اے اللہ ! مجھے نعمتوں والی جنت کا وارث بنا۔ (الشعراء :85) 9۔ اے اللہ انھی میں سے ایک پیغمبر مبعوث فرما جو ان پر تیری آیات تلاوت کرے انھیں کتاب وحکمت سکھلائے۔ (البقرۃ:129)