سورة البقرة - آیت 10

فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

ایسے لوگوں کے دلوں میں (نفاق کی) بیماری ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اور زیادہ [١٤] بڑھا دیا۔ اور جو وہ جھوٹ بک [١٥] رہے ہیں اس کے عوض ان کے لیے دکھ دینے والا عذاب ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : منافقت ایک روحانی بیماری ہے جس سے کئی جرائم جنم لیتے ہیں۔ منافق جھوٹ بولنے کا عادی ہوتا ہے۔ اس لیے اس کی روحانی اور اخلاقی بیماریوں میں اضافہ ہی ہوا جاتا ہے بالکل اس مریض کی طرح جس کے لیے بہترین خوراک بھی بیماری میں اضافے کا سبب بنتی ہو۔ یہاں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ انسان جسمانی طور پر ہی بیمار نہیں ہوتا اس کی روح بھی بیمار ہوتی ہے جسم مادی عناصر سے بنا ہے۔ اس کا علاج مادی عوامل سے ہوتا ہے۔ روح اللہ تعالیٰ کا حکم اور ملکوتی ہے۔ اس کا علاج روحانی یعنی اللہ تعالیٰ کے کلام اور اس کے نبی کی تابعداری سے ہوتا ہے۔ (إِنَّ الْحَلَالَ بَیِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَیِّنٌ وَبَیْنَھُمَا مُشْتَبِھَاتٌ لَایَعْلَمُھُنَّ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ فَمَنِ اتَّقَی الشُّبُھَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِیْنِہٖ وَعِرْضِہٖ وَمَنْ وَقَعَ فِی الشُّبُھَاتِ وَقَعَ فِی الْحَرَامِ کَالرَّاعِیْ یَرْعٰی حَوْلَ الْحِمٰی یُوْشِکُ أَنْ یَّرْتَعَ فِیْہِ أَلَا وَإِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِمًی أَلَا وَإِنَّ حِمَی اللّٰہِ مَحَارِمُہٗ أَلَا وَإِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ وَإِذَ فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ أَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ) (رواہ مسلم : کتاب المساقاۃ، باب أخذ الحَلال وترک الشبھات) ” یقیناً حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی۔ ان کے درمیان کچھ متشابہات ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے جو شبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو شبہات میں پڑگیا وہ حرام میں مبتلا ہوگیا۔ یہ اس چرواہے کی طرح ہے جو چراگاہ کے قریب جانور چراتا ہے ہوسکتا ہے وہ جانور چراگاہ میں چرنا شروع ہوجائیں۔ خبردار! ہر بادشاہ کی چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ سنو! یقیناً جسم میں ایک ٹکڑا ہے وہ ٹھیک ہو تو سارا جسم درست ہوتا ہے اور وہ فاسد ہو تو سارا جسم خراب ہوجاتا ہے یاد رکھو! وہ دل ہے۔“ رسول اللہ {ﷺ}سے استفسار کیا گیا کہ کیا مومن جھوٹ بول سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں۔ (مؤطا امام مالک : کتاب الجامع، باب أن عبداللہ بن مسعود کان یقول علیکم بالصدق ) (إِیَّاکُمْ وَ الْکَذِبَ فَإِنَّ الْکَذِبَ یَھْدِیْ إِلَی الْفُجُوْرِ وَإِنَّ الْفُجُوْرَ یَھْدِیْ إِلَی النَّارِ وَمَایَزَال الرَّجُلُ یَکْذِبُ وَیَتَحَرَّی الْکَذِبَ حَتّٰی یُکْتَبَ عِنْدَ اللّٰہِ کَذَّابًا) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب) ” تم جھوٹ سے کنارہ کش رہو۔ اس لیے کہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ دوزخ میں پہنچا دیتا ہے۔ جب ایک شخص ہمیشہ جھوٹ بولتا اور جھوٹ کا عادی ہوجاتا ہے تو وہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔“ دل کی حالت : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ {}قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْئَۃً نُکِتَتْ فِیْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللّٰہُ ﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ﴾) (رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن) ” حضرت ابوہریرہ {رض}رسول اللہ {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب بندہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پرسیاہ نکتہ پڑجاتا ہے جب وہ گناہ چھوڑ دے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل پالش ہوجاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ گناہ کی طرف پلٹے تو سیاہی اس کے دل پر چڑھ جاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ (ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے زنگ چڑھ چکا ہے۔) “ مسائل: 1- منافقت دل کی بیماری ہے۔ 2- منافق جھوٹا ہوتا ہے۔ 3-منافقت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ منافق کی بیماری کو بڑھا دیتا ہے۔ 4- منافق کو اذیت ناک عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن : روحانی بیماریاں : 1- ریاکاری۔ ( البقرۃ: 264، النساء : 142، الأنفال : 47، الماعون : 4تا 6 ) 2- قساوت قلب۔ (المائدۃ: 13، الزمر :22) 3- کفر۔ (البقرۃ:10) 4-تکبر۔ (النحل : 22، لقمان : 18، النساء :172) 5- کجی۔ ( التوبۃ: 117، آل عمران : 7، الصف :5) 6- دل کا زنگ آلود ہونا۔ ( المطففین :14) 7-حسد۔ ( البقرۃ: 109، النساء :54) 8- سرکشی۔ ( البقرۃ: 90، 213، یونس :90) 9- بغض۔ (آل عمران : 118، المائدۃ: 91، الممتحنۃ:4)