وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ
اور (یاد کرو) جب ابراہیم نے دعا کی تھی : اے میرے پروردگار! اس شہر (مکہ) کو پرامن بنا دے اور مجھے بھی اور میری اولاد کو بھی (اس بات سے) بچائے رکھنا کہ ہم بتوں کی [٣٨] پوجا کریں
فہم القرآن : (آیت 35 سے 36) ربط کلام : اللہ کی توحید کا انکار کرنے والا شخص ظالم اور ناقدری کرنے والا ہوتا ہے قریش مکہ اپنے آپ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد تصور کرتے تھے۔ انہیں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا عقیدہ بتلاکریہ احساس دلایا گیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) اپنے رب کے قدر دان اور صرف اسی کے تابع فرمان تھے۔ اے دنیا جہان کے انسانو بالخصوص مکہ میں بسنے والے لوگو! جس عالی مرتبت شخصیت کے ساتھ تم ناطہ جوڑتے اور اس کے بسائے ہوئے شہر میں رہتے ہو اس کا عقیدہ یہ تھا کہ جب اس نے اپنی زوجہ مکرمہ اور اکلوتے لخت جگر کو مکہ میں ٹھہرا کر اس شہر کی بنیاد رکھی تھی تو اس نے اپنے رب کے حضور سب سے پہلے یہ التجا کی تھی ” میرے رب میں اپنی اولاد کو تیرے حکم پر، تیرے محترم گھر کے قریب چھوڑے جا رہا ہوں۔ میری پہلی فریاد یہ ہے کہ الٰہی! اس شہر اور گھر کو امن وسکون کا گہوارا بنانا مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی عبادت سے بچائے رکھنا، میرے رب! بتوں کی وجہ سے بے شمار لوگ گمراہ ہوئے ہیں۔ جو میری اتباع کرے یقیناً وہ میرا ساتھی ہے اور جس نے میری نافرمانی کی الٰہی! تو معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس دعا سے تین باتیں سامنے آتی ہیں۔ پہلی دعا اور اس کا دنیوی فائدہ : آدمی جہاں رہ رہا ہو اس مقام اور شہر میں امن نہ ہو تو انسان کوئی کام بھی دلجمعی کے ساتھ نہیں کرسکتا۔ بلکہ ایک وقت آتا ہے کہ انسان اس علاقہ کو چھوڑ نے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ فرد، قوم اور ملک کی ترقی کے لیے یہ بنیادی بات ہے کہ علاقہ میں امن وامان ہو، جسے تمدن کی زبان میں یوں کہا جاتا ہے کہ چادر اور چار دیواری کا تحفظ معاشرہ اور ملک کی ترقی کے لیے خشت اول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا مستجاب کرتے ہوئے رہتی دنیا تک اس شہر اور بیت اللہ کو امن کا گھر اور شہر قرار دیا ہے۔ مکہ کی آباد کاری کی ابتدا : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی اولاد کو چھوڑ کر چلے گئے تو کچھ عرصہ بعد یمن سے ایک قبیلہ آیا جسے تاریخ میں جرہم ثانی کہا جاتا ہے۔ یہ قبیلہ اسماعیل (علیہ السلام) کی والدہ سے اجازت لے کر مکہ میں ٹھہر گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قبیلہ پہلے مکہ کے گرد و پیش کی وادیوں میں سکونت پذیر تھا۔ صحیح بخاری میں اتنی صراحت موجود ہے کہ رہائش کی غرض سے یہ لوگ مکہ میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی آمد کے بعد اور ان کے جوان ہونے سے پہلے وارد ہوئے تھے۔ لیکن اس وادی سے ان کا گزر اس سے پہلے بھی ہوا کرتا تھا۔ ( صحیح بخاری : کتاب الانبیاء) دوسری دعا : اے میرے پالنہار! مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی عبادت سے بچائے رکھنا۔ یاد رہے کہ دنیا میں شرک کی ابتدا مٹی اور پتھروں کے مجسموں سے ہی ہوئی تھی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے پہلے انبیاء (علیہ السلام) اور فوت شدگان بزرگوں کے مجسمے اس لیے بنائے تھے تاکہ بزرگوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے ان کی ارواح کے واسطے سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرکے اس کے حضور دعا اور عبادت کی جائے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو طبعًا اور شرعًا شرک اور ان کے ذرائع سے شدید نفرت تھی۔ اس بنا پر انہوں نے اپنے شہر کے سب سے بڑے بت خانہ کو پاش پاش کیا تھا۔ اس لیے دعا کرتے ہیں اے میرے پالنہار ! مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی عبادت سے بچائے رکھنا۔ اپنے بارے میں بتوں کی عبادت سے بچنے کی دعا انہوں نے نفرت کا اظہار کرنے اور آئندہ نسلوں کو پیغام دینے کے لیے کی تھی تاکہ لوگوں کو ابراہیم (علیہ السلام) کا عقیدہ معلوم ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کو نہ صرف اپنے ساتھ شرک سے نفرت ہے بلکہ قیامت کے دن ان لوگوں کو بھی جہنم میں جھونکا جائے گا جنہوں نے کسی نہ کسی طریقہ سے شرک کی راہ ہموار کی تھی۔ یہاں تک کہ جن پتھروں کے مجسمے بنائے گئے یا برکت کے طور انہیں استعمال کیا گیا۔ جس طرح کچھ لوگ برکت کے طور پر بعض پتھروں کو انگوٹھی کے نگینہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں ان پتھروں کو بھی جہنم میں تپایا جائے گا۔ ( الانبیاء :98) (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ حَرَّمَ اللّٰہُ مَکَّۃَ، فَلَمْ تَحِلَّ لأَحَدٍ قَبْلِیْ وَلاَ لأَحَدٍ بَعْدِیْ، أُحِلَّتْ لِیْ سَاعَۃً مِّنْ نَہَارٍ، لاَ یُخْتَلٰی خَلاَہَا، وَلاَ یُعْضَدُ شَجَرُہَا، وَلاَ یُنَفَّرُ صَیْدُہَا وَلاَ تُلْتَقَطُ لُقَطَتُہَا إِلاَّ لِمُعَرِّفٍ)[ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب الإِذْخِرِ وَالْحَشِیشِ فِی الْقَبْر ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مکہ کو محترم قرار دیا ہے۔ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے جائز تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے جائز ہے۔ میرے لیے دن کی ایک گھڑی میں جائز قرار دیا ہے، نہ اس کی گھاس کو کاٹاجائے اور نہ اس کے درختوں کو کاٹا جائے اور نہ اس کا شکار کیا جائے اور نہ اس کی گری ہوئی چیز کو اٹھایا جائے مگر اعلان کرنے کی غرض سے۔“ مکہ معظمہ کا مقام : یہ وادئ قدس‘ جلالت و عظمت‘ رفعت و بلندی اور علومرتبت کے لحاظ سے اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ یہ دنیا و جہان کی تمام بستیوں، قصبوں اور شہروں میں نرالی حیثیت کی حامل ہے یہ ایسی نگری ہے جس میں داخل ہونے والے کو قرار اور سکون میسر ہوتا ہے، اس کی ہواؤں اور فضاؤں میں خالقِ کائنات نے طمانیت قلب کا وہ سامان پیدا فرمایا ہے جو دنیا میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ اس کا یوں تذکرہ کیا گیا ہے : ﴿وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْن وَطُوْرِسِیْنِیْنَ وَھٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ﴾ [ التین : 1۔3] ” قسم ہے انجیر، زیتون، طور سینا اور اس پُر امن شہر (مکہ) کی“ مسائل: 1۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ معظمہ کے لیے دعا مانگی الٰہی! اسے امن والا شہر بنادے۔ 2۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی الٰہی! مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی عبادت سے بچائے رکھنا۔ 3۔ بتوں کی وجہ سے بہت سارے لوگ گمراہ ہوئے۔ 4۔ نبی کا امتی نبی کی فرمانبرداری کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن : مکہ معظمہ اور بیت اللہ کا مرتبہ اور مقام : 1۔ دنیا میں پہلا گھر بیت اللہ تعمیر ہوا۔ (آل عمران :96) 2۔ قسم ہے اس شہر کی۔ (البلد :1) 3۔ اے میرے رب اس گھر کو امن والا بنا۔ (ابراہیم :35) 4۔ قسم ہے اس امن والے شہر کی۔ (والتین :3) 5۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی اے اللہ اس شہر کو امن والا بنا۔ (البقرۃ :126)