وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُم بِأَيَّامِ اللَّهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ
اور ہم نے موسیٰ کو اپنے معجزے دے کر بھیجا (اور حکم دیا) کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاؤ۔ اور انھیں اللہ تعالیٰ کے [٦] ایام (واقعات عذاب الٰہی) سے عبرت دلاؤ۔ ان واقعات میں ہر صبر اور شکر [٧] کرنے والے کے لئے بہت سے (عبرت کے) نشان ہیں
فہم القرآن : ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) قومی زبان میں خطاب فرماتے اور ان کی دعوت کا مقصد لوگوں کو ہر قسم کی تاریکیوں سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ روشنی کی طرف بلانا تھا۔ پیغمبرانہ جدوجہد کے اعتبار سے اور قوم کے مزاج کے حوالے سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور سرور دوعالم (ﷺ) کے درمیاں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ ” اے اہل مکہ! ہم نے تم پر حق کی شہادت قائم کرنے کے لیے تم ہی میں سے ایسا رسول بھیجا ہے جیسا ہم نے فرعون کے پاس رسول بھیجا تھا۔ فرعون نے اپنے رسول کی بات کا انکار کیا تب ہم نے اسے سختی کے ساتھ پکڑا۔ (المزمل : 15۔16) اس روحانی اور دعوتی تعلق اور مماثلت کی وجہ سے نبی اکرم (ﷺ) کی دعوت اور لوگوں کے مزاج کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دلائل دے کر ان کی قوم کی طرف بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ روشنی کی طرف لانے کی کوشش کریں اور انہیں اللہ کے ایام یاد دلائیں۔ یقیناً اس میں اس کے لیے عبرت کے نشانات ہیں جو مشکلات پر صبر کرنے والا اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا ہے۔ قرآن مجید نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت اور ان پر نازل ہونے والی کتاب تورات کو بھی النور فرمایا ہے اور اس کے مقابلے میں لوگوں کے عقائد ونظریات کو ظلمات سے تشبیہ دی ہے۔ ہدایت ایک ہی ہے جو ہمیشہ سے ایک ہی رہی ہے اور گمراہی اندھیرا ہے۔ جس کی ہر زمانے میں مختلف شکلیں اور صورتیں ہوتی ہیں۔ ایام اللہ سے مراد قوموں کے عروج و زوال کے واقعات اور وہ عتاب ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجرموں پر نازل ہوئے تھے۔ جس کی مثالیں حضرت نوح (علیہ السلام) اور دوسرے انبیاء (علیہ السلام) کے حوالے سے قرآن مجید اور تورات میں مذکور ہیں۔ ایام اللہ سے مراد وہ دن بھی ہو سکتے ہیں جن ایام میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء (علیہ السلام) کو کامیابی نصیب ہوئی جیسا کہ محرم کی دس تاریخ کو فرعون اور اس کے لشکر وسپاہ کو غرق کیا گیا اور بنی اسرائیل کو سربلند کرتے ہوئے انھیں سرخروئی عطا کی گئی۔ نبی اکرم (ﷺ) کو بدر، خندق، مکہ کے دن، حنین اور تبوک کے محاذ میں سرفراز کیا گیا۔ یہ واقعات اور ایام اس شخص کے لیے مشعل راہ اور عبرت کانشان ہیں جو مشکلات پر صبر کرنے اور حق پر مستقل مزاجی کے ساتھ قائم رہنے والا ہوتا ہے۔ ایسے شخص کو جب اللہ تعالیٰ کامیابی اور کسی نعمت سے سرفراز کرتا ہے تو وہ اترانے اور اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرنے کی بجائے اس کے حضور عجزو عاجزی کا اظہار کرتا ہے اور اس کا شکربجالاتا ہے۔ قرآن مجید نے ہدایت اور گمراہی کو صبر اور شکر کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔ (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) عَجَبًا لأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّآءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّآءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہٗ) [ رواہ مسلم : کتاب الزہد والرقائق، باب الْمُؤْمِنُ أَمْرُہٗ کُلُّہٗ خَیْرٌ] ” حضرت صہیب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا مومن کا معاملہ عجب ہے بے شک اس کے تمام کاموں میں بہتری ہے۔ جو مومن کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ مومن کو خوش کردینے والی چیز ملتی ہے تو وہ شکر ادا کرتا ہے یہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو معجزات عطا فرمائے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں۔ 3۔ ہر صابرو شاکر کے لیے ایام اور واقعات میں نشانیاں ہیں۔ تفسیر بالقرآن : آسمانی ہدایت نور ہے اور تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) اس نور کی طرف لوگوں کو بلایا کرتے تھے : 1۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا تاکہ ان کے ذریعے اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کرروشنی کی طرف لائیں۔ (ابراہیم :5) 2۔ یقیناً آیا ہے تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور واضح کتاب۔ (المائدۃ:15) 3۔ اللہ رہنمائی کرتا ہے نور کی طرف جس کو چاہتا ہے۔ (النور :35) 4۔ ہم نے تو رات اتاری اس میں ہدایت اور نور ہے۔ (المائدۃ:44) 5۔ ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل کی تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لائیں۔ (ابراہیم :1) 6۔ اللہ اپنے دوستوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے شیطان اپنے دوستوں کو روشنی سے اندھیروں کی طرف لے جاتا ہے۔ (البقرۃ:257)