سورة الرعد - آیت 37

وَكَذَٰلِكَ أَنزَلْنَاهُ حُكْمًا عَرَبِيًّا ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم بَعْدَمَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا وَاقٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اسی کے ہاں مجھے جانا ہے ( اسی طرح ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں حَکَمَ بنا کر [٤٨] اتارا ہے۔ اب اگر اس علم کے بعد جو آپ کے پاس آچکا ہے، آپ نے ان لوگوں کے خواہشات کی پیروی [٤٩] کی تو اللہ کے مقابلہ میں آپ کا نہ کوئی حمایتی ہوگا اور نہ (اس کی گرفت سے) بچانے والا

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : جس طرح پہلے انبیاء (علیہ السلام) کو آسمانی کتابیں عنایت کی گئیں۔ اسی طرح نبی (ﷺ) کو قرآن مجید عطا ہوا جو عربی زبان میں ہے۔ آپ کو حکم تھا کہ لوگوں کی خواہشات کے پیچھے چلنے کی بجائے اللہ کے حکم کی اتباع کرنا ہے۔ اس خطاب کا آغاز آیت نمبر 30سے ان الفاظ سے شروع ہوا ہے کہ آپ کی امت جیسی پہلے بھی امتیں گزری ہیں۔ لہٰذا آپ اپنی امت کو پڑھ کر سنائیں۔ جو ہم نے آپ کی طرف نازل فرمایا ہے۔ یہ قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے حکم کی حیثیت رکھتا ہے یہ ایسا حکم ہے جس میں اچھے کاموں کے کرنے کا حکم ہے اور برے کاموں سے منع کیا گیا ہے۔ اچھے کام کرنے والوں کے لیے خوشخبریاں ہیں اور برے کام کرنے والوں کو ان کے برے انجام سے ڈرایا گیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر مشتمل ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے عربی زبان میں نازل کیا ہے۔ جس طرح پہلی کتابیں جن لوگوں کے لیے نازل کی گئیں وہ انہی کی زبان میں تھیں۔ تاکہ لوگوں کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ جس قوم کی زبان میں کتاب نازل ہوتی ہے ان کا فرض دوسری اقوام سے نسبتاً زیادہ ہوتا ہے اور جس شخصیت گرامی پر کتاب نازل ہوتی ہے اس شخصیت پر سب سے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ لہٰذا اے پیغمبر! آپ پر ہم نے قرآن مجید نازل کیا جو سراسر علم و حکمت کا منبع ہے۔ اس کے باوجود اگر آپ نے ہمارے حکم کو چھوڑ کر خوف یا کسی وجہ سے ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو یادرکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں نہ کوئی آپ کا حمایتی ہوگا اور نہ ہی کوئی آپ کو بچانے والا ہوگا۔ آپ کو اور آپ کے حوالے سے آپ کی امت کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ ہر حال میں اپنے رب کا حکم ماننا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () أَحِبُّوا الْعَرَبَ لِثَلاَثٍ لِأَنِّیْ عَرَبِیٌّ، وَالْقُرْاٰنَ عَرَبِیٌّ، وَکَلاَمَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ عَرَبِیٌّ )[ شعب الایمان للبیھقی ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا میں عربوں سے تین وجہ سے محبت کرتا ہوں اس لیے کہ میں عربی ہوں، قرآن عربی زبان میں نازل ہوا اور جنتیوں کی زبان بھی عربی ہوگی۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ہَوَاہٗ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِہٖ) [ رواہ فی شرح السنۃ وقال النووی فی أربعینہ : ہذا حدیث صحیح ] ” عبداللہ بن عمر و (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات اس چیز کے تابع نہ ہوجائیں جو میں لایا ہوں۔“ مسائل: 1۔ قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں انسان کا کوئی مدگار نہیں ہوتا۔ 3۔ دین کا علم حاصل ہوجانے کے بعد کسی کی خواہشات کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں انسان کو کوئی بچانے والا نہیں : 1۔ اگر آپ (ﷺ) ان کی خواہشات کی پیروی کریں گے تو آپ کا نہ کوئی مددگار ہوگا اور نہ کوئی اللہ سے بچانے والا ہوگا۔ (الرعد :37) 2۔ اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ (ہود :43) 3۔ جب اللہ نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں پکڑ لیاتو انہیں کوئی بچانے والا نہ تھا۔ (المومن :21) 4۔ اس دن تم پیٹھوں کے بل واپس پلٹوگے اللہ تعالیٰ سے تمہیں کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔ (المومن :33) 5۔ کہہ دیجیے کون ہے جو تمہیں اللہ کے عذاب سے بچاۓ گا اگر وہ تمہیں اس میں مبتلا کرنا چاہے۔ (الاحزاب :17) 6۔ ان کے چہروں کو ذلت و رسوائی نے ڈھانپ رکھا ہوگا اور اللہ تعالیٰ سے انھیں کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔ (یونس :27)