سورة الرعد - آیت 36

وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَفْرَحُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ ۖ وَمِنَ الْأَحْزَابِ مَن يُنكِرُ بَعْضَهُ ۚ قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ وَلَا أُشْرِكَ بِهِ ۚ إِلَيْهِ أَدْعُو وَإِلَيْهِ مَآبِ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جن لوگوں کو ہم نے (اس سے پہلے) کتاب دی تھی وہ اس کتاب سے خوش [٤٦] ہوتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے اور ان کے گروہوں میں کچھ ایسے ہیں جو اس قرآن کے بعض (حکموں) کا انکار کرتے ہیں۔ آپ ان سے کہئے'': مجھے تو بس یہی حکم ہوا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت [٤٧] کروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کروں۔ میں اسی کی طرف بلاتا ہوں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : موحدین کا صلہ، مشرکین اور کفار کا انجام بیان کرنے کے بعد اہل کتاب کو شرک کے بارے میں متنبہ کیا گیا ہے۔ اہل کتاب دو گر وہ تھے ایک وہ جماعت جس نے حق پہنچایا اور اس پر ایمان لائے اور دین اسلام پر خوش ہوگئے۔ دوسرے وہ لوگ تھے جنھوں نے حق جاننے کے باوجود تعصب کی وجہ سے اس کا انکار کیا۔ اس طرح یہ لوگ کفرو شرک میں مبتلا ہوئے اور مبتلا رہیں گے۔ شرک کرنے والوں کو مجموعی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا گروہ کفار کا ہے جو ملائکہ، جنات، شمس و قمر، ستاروں، بتوں اور دیگر چیزوں کو مختلف انداز میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات میں شریک سمجھتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو کسی نہ کسی نبی کا پیروکار اور آسمانی کتاب کا حامل سمجھتے ہیں۔ لیکن انبیاء (علیہ السلام) اور اپنے بزرگوں کی روحوں اور مزارات کو اللہ کے قرب کا ذریعہ اور اس کے حضور وسیلہ اور واسطہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیا اور عیسائیوں کی اکثریت نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا اور حضرت مریم علیھا السلام کو اللہ کی بیوی قرار دیا۔ آپ کو حکم ہے کہ اے رسول ! آپ فرمادیں کہ میں صرف اور صرف ایک اللہ کی دعوت دیتا ہوں اور اسی کے حضور مجھے پیش ہونا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ () اَتَی الْمَقْبَرَۃَ فَقَال السَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ وَاِنَّآ اِنْ شَآء اللّٰہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ وَدِدْتُّ اَنَّا قَدْ رَایْنَا اِخْوَانَنَا قَالُوْا اَوَلَسْنَا اِخْوَانَکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ اَنْتُمْ اَصْحَابِیْ وَاِخْوَانُنَا الّذِیْنَ لَمْ یَاتُوْابَعْدُ فَقَالُوْا کَیْفَ تَعْرِفُ مَنْ لَّمْ یَاْتِ بَعْدُ مِنْ اُمَّتِکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ اَرَأَ یْتَ لَوْ اَنَّ رَجُلًا لَّہٗ خَیْلٌ غُرٌّ مُّحَجَّلَۃٌ بَیْنَ ظَہْرَیْ خَیْلٍ دُھْمٍ بُھْمٍ اَلَا یَعْرِفُ خَیْلَہٗ قَالُوْا بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ فَاِنَّھُمْ یَاتُوْنَغُرًّا مُّحَجَّلِیْنَ مِنَ الْوُضُوْٓءِ وَاَنَا فَرَطُھُمْ عَلَی الْحَوْضِ)[ رواہ مسلم : کتاب الطہارۃ، باب اسْتِحْبَابِ إِطَالَۃِ الْغُرَّۃِ وَالتَّحْجِیْلِ فِی الْوُضُوْٓءِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ذکر کرتے ہیں رسول محترم (ﷺ) ایک دن قبرستان میں تشریف لے گئے فرمایا السَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ وَاِنَّا اِنْ شَآء اللّٰہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ اے ایمان والو! تم پر سلام ہو ہم ان شاء اللہ عنقریب تم سے ملنے والے ہیں۔ میری تمنا ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کی زیارت کریں۔ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا تم میرے ساتھی ہو۔ میری مراد وہ بھائی ہیں جو ہمارے بعد آئیں گے۔ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ اپنی امت کے بعد والے لوگوں کو کس طرح پہچانیں گے؟ آپ نے استفسار فرمایا اگر کسی شخص کے گھوڑے کی پیشانی اور چاروں پاؤں سفید ہوں کیا وہ بالکل سیاہ رنگ گھوڑوں میں اسے پہچان نہیں سکتا؟۔ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں۔ فرمایا کہ بعد میں آنے والے لوگوں کے اعضا وضوکی وجہ سے چمکتے ہوں گے میں حوض کوثر پر ان کا استقبال کروں گا۔“ مسائل: 1۔ کتاب اللہ کو تسلیم کرنے والے اس کے احکام سے خوش ہوتے ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم (ﷺ) کو صرف اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا۔ 3۔ نبی اکرم (ﷺ) لوگوں کو ایک اللہ کی طرف بلاتے تھے۔ 4۔ ہر کسی نے اللہ تعالیٰ کے ہاں پلٹ کرجانا ہے۔ تفسیر بالقرآن : سب نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے : 1۔ میں اسی کی طرف بلاتا ہوں اور اسی کی طرف مجھے واپس جانا ہے۔ (الرعد :36) 2۔ اللہ کو ہی قیامت کا علم ہے اور اسی کی طرف تم نے لوٹنا ہے۔ (الزخرف :85) 3۔ زمین اور جو کچھ اس میں ہے ہم اس کے وارث ہیں اور وہ ہماری طرف لوٹیں گے (مریم :40) 4۔ اللہ کے لیے زمین و آسمان کی بادشاہت ہے اور اسی کے سامنے پیش کیے جاتے۔ (الزمر :44) 5۔ وہ زندہ کرتا اور مارتا ہے اور اسی کے حضور تم نے پیش ہونا ہے (یونس :56)