أَفَمَنْ هُوَ قَائِمٌ عَلَىٰ كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ ۗ وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ ۚ أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَم بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ ۗ بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مَكْرُهُمْ وَصُدُّوا عَنِ السَّبِيلِ ۗ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ
بھلا وہ ذات جو ہر نفس کی کمائی پر نظر رکھتی ہے (انہیں بغیر سزا کے چھوڑ دے گی؟) جبکہ انہوں نے اللہ کے شریک بنا رکھے ہیں۔ آپ ان سے کہئے : ان شریکوں کے نام [٤٤] تو لو یا تم اللہ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جو زمین میں موجود تو ہے مگر وہ اسے نہیں جانتا ؟ یا جو کچھ منہ میں آئے کہہ ڈالتے ہو؟ بلکہ کافروں کے لئے ان کے مکر [٤٥] خوشنما بنا دیئے گئے ہیں اور وہ راہ حق سے روک دیئے گئے ہیں اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں
فہم القرآن : (آیت 33 سے 34) ربط کلام : اے رسول ! کیا آپ کو مذاق کرنے والے بھول گئے ہیں کہ کیا اللہ تعالیٰ ان پر نگران نہیں ہے؟ اے رسول ! انبیاء ( علیہ السلام) کے ساتھ مذاق کرنے والے مجرموں کو اس ذات حق نے پکڑا جوہر نفس پر نگران اور اسے پکڑنے پر پوری طرح قادر ہے۔ وہ ہر نفس کے کردار اور افکار پر نگران ہے۔ رقیب کے معنی نگران کے ہیں۔ اس کے لفظی معنی کھڑے ہونے کے بھی ہیں جو ہر زبان میں محاورہ ہے کہ فلاں شخص فلاں کے سر پر کھڑا ہے۔ پہلے لوگوں کے گناہوں کا بنیادی سبب شرک تھا اور ان لوگوں نے بھی اللہ کے شریک بنا رکھے ہیں۔ انہیں بتلائیں کہ جن کو تم حاجت روا سمجھے ہو یہ تو محض تمہارے رکھے ہوئے نام ہیں۔ ان کے پیچھے نہ کوئی وجود ہے اور نہ ہی ان کی کوئی حقیقت جب تم پر اللہ کی گرفت ہوگی تو کوئی تمہارے کام نہ آسکے گا۔ مشرکوں کے رکھے ہوئے ناموں کی حقیقت پر غور کریں تو معلوم ہوگا۔ یہ ایک دھوکہ اور افسانے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ مثال کے طور پر پیر عبدالقادر جیلانی (رح) کو لیجیے۔ لوگ انھیں دستگیر کہتے ہیں کہ وہ ڈوبتے بیٹرے بچا لیتے ہیں۔ 2005 ء کی بات ہے پوری دنیا کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں اور اس وقت ٹی وی بلیٹن نکلوا کر دیکھیں اور سنیں کہ امریکہ کی عراق پر بمباری سے پیر عبدالقادر جیلانی (رح) کے مزار کو کس قدر شدید نقصان پہنچا۔ اسی طرح نجف میں حضرت علی (رض) کے مزار کا ایک حصہ تباہ ہوا۔ پیر صاحب اور حضرت علی (رض) اپنے مزارات کو نہ بچا سکے۔ گویا کہ علی مشکل کشا اور پیر دستگیر محض مشرکوں کے رکھے ہوئے نام ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ دراصل کفار کے لیے ان کے مکر و فریب خوبصورت بنا دیے گئے ہیں۔ (النحل :63) اور وہ راہ حق سے روک دیے گئے ہیں۔ یہاں مشرکوں کو کافر اور ان کے شرک کو مکر و فریب قرار دیا گیا ہے مکر کا مفہوم ہے کسی کے خلاف سازش کرنا یا حقیقت کے خلاف کوئی چیز پیش کرنا۔ 1۔ قولی اور فعلی طور شرک کا پر چار کرنے والے لوگ توحید کے عقیدہ کے خلاف سازش کرتے ہیں۔ 2۔ شرک کرنے والے ہمیشہ جھوٹی اور من گھڑت کہانیوں کے ذریعے لوگوں کا عقیدہ خراب کرتے ہیں جسے قرآن مجید نے مکرو فریب قرار دیتا ہے۔ 3۔ شرک جھوٹ، فریب اور مکرو ریا کا دوسرا نام ہے۔4۔ شرک کا پر چار کرنے والے من گھڑت بزرگوں کی کرامات کے حوالے سے جھوٹے قصے بیان کر کے لوگوں کو دھوکہ دے کر عقیدہ توحید سے روکتے ہیں۔ 5 ۔مشرک ایک سازش اور گھناؤنے منصوبے کے تحت جھوٹی کرامات بیان کر کے لوگوں کا مال ہڑپ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو دنیا میں بھی عذاب دے گا اور آخرت میں ان کے لیے سخت ترین عذاب ہوگا۔ انہیں بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔ کسی فرد اور قوم کی گمراہی کی اس وقت کوئی حد نہیں رہتی جب اس کے گناہ اس کے لیے فیشن اور فخر کا ذریعہ بن جائیں۔ ایسے فرد یا قوم کو پھر کوئی راہ راست پر نہیں لا سکتا۔ پہلی قوموں کے عذاب کے واقعات قرآن مجید نے بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ اہل مکہ پر اس طرح کا عذاب نازل نہ ہوا۔ لیکن تباہی اور ذلت کے حوالے سے انہیں پہلی اقوام کے مقابلہ میں بہت بڑی سزا سے دوچار ہونا پڑا۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کفار کو ان کا مکر وفریب خوشنما کر کے دکھاتا ہے۔ 2۔ جسے اللہ گمراہ رکھنا چاہے اسے کوئی راہ راست پر نہیں لاسکتا۔ 3۔ کفار کو دنیا اور آخرت میں عذاب ہوگا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کفار کوئی نہیں بچاسکتا۔