قُلْ هَٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ
آپ ان سے کہہ دیجئے کہ : میرا راستہ یہی ہے کہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ میں خود بھی اس راہ کو پوری روشنی [ ١٠٢] میں دیکھ رہا ہوں اور میرے پیروکار بھی۔ اللہ پاک ہے اور مشرکوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں
فہم القرآن : ربط کلام : مشرکین کے ایمان کی نفی کرنے کے بعد نبی اکرم (ﷺ) کی دعوت کی وضاحت اور آپ کے طریقہ دعوت کی تشریح پیش کی جاتی ہے۔ اے نبی! آپ وضاحت فرمائیں کہ میرا راستہ اور میری دعوت لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا ہے۔ نہایت دانائی اور خدا دادبصیرت کے ساتھ یہی میرے متبعین کا راستہ اور دعوت ہے۔ ان کو بتادیں کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کے حوالے سے ہر قسم کے شرک سے مبرا ہے اور ہم کسی طرح بھی مشرکین سے نہیں ہیں۔ اس آیت میں نبی اکرم (ﷺ) کی زبان اطہر سے کہلوایا گیا ہے کہ آپ خود یہ اعلان فرمائیں کہ میرا راستہ اور میری دعوت یہ ہے کہ میں لوگوں کو نہایت دانائی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف بلاؤں۔ یہ بات پہلے بھی عرض کی جاچکی ہے کہ عقیدہ کے متعلق جتنی اہم باتیں ہیں۔ ان کے اظہار کے لیے پہلے قل کا لفظ لایا جاتا ہے۔ حالانکہ سارا قرآن اور شریعت نبی اکرم (ﷺ) نے ہی بیان کی ہے۔ آپ کی بیان کردہ ہر بات اہم اور واجب الاتباع ہے لیکن اس کے باوجود بنیادی اور مرکزی باتوں کے لیے حکم ہوتا ہے کہ اے نبی! آپ اعلان فرمائیں کہ میری زندگی کا مشن یہ ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں میں خدا داد بصیرت کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا رہوں۔ اللہ کی طرف بلانے کا معنی اس کی توحید اور احکام کی طرف دعوت دینا ہے۔ جو میرا سچا فرمانبردار ہے اس کا بھی یہی راستہ ہے اور ہونا چاہیے۔ ہمارا مشرکوں کے ساتھ کوئی رشتہ ناطہ نہیں ہے۔ مشرک کے ساتھ رشتہ نہ رکھنے کا صرف یہ مطلب نہیں ایک سچے امتی کا مشرکوں جیسا عقیدہ اور عمل نہیں ہونا چاہیے۔ قرآن مجید نے مشرکوں سے نکاح حرام قرار دیا اور ان سے قلبی محبت سے منع کیا ہے۔ (البقرۃ:221) داعی کی چیدہ چیدہ صفات : 1۔ داعی کو وحی الٰہی کی پیروی کرنا چاہیے۔ (یونس :15) 2۔ داعی کو سب سے پہلے مسلمان یعنی ” اللہ“ کا تابع دار ہونا چاہیے۔ (الانعام :163) 3۔ داعی کا لباس پاک صاف ہونا چاہیے۔ (المدثر :4) 4۔ داعی کو لالچ سے گریز کرنا چاہیے۔ (المدثر :6) 5۔ داعی کو ہر وقت کمر بستہ رہنا چاہیے۔ (المدثر :2) 6۔ داعی کو حکمت اور خیر خواہی کے ساتھ دعوت دینا چاہیے۔ (النحل :125) 7۔ داعی کو برائی کا جواب برائی سے نہیں دینا چاہیے۔ (حم السجدۃ:34) 8۔ داعی کو صابر ہونا چاہیے۔ ( المدثر :7) 9۔ داعی کو عملی نمونہ پیش کرنا چاہیے۔ (یونس :16) مسائل: 1۔ نبی کریم (ﷺ) لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے تھے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر نقص اور عیب سے پاک ہے۔ 3۔ رسول کریم (ﷺ) مشرکوں سے برأت کا اظہار فرماتے تھے۔ تفسیر بالقرآن : انبیاء کرام (علیہ السلام) کا شرک سے براءت کا اظہار : 1۔ آپ فرما دیں اللہ تعالیٰ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ (یوسف :108) 2۔ کہہ دیجیے اللہ ایک ہے بے شک میں تمہارے شرک سے بری ہوں۔ (الانعام :19) 3۔ حضرت ابراہیم نے کہا اے میری قوم! میں تمہارے شرک سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ (الانعام :78) 4۔ ھود (علیہ السلام) نے کہا میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی بنالو میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔ (ہود :54) 5۔ بے شک اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بری ہے۔ (التوبۃ:3) 6۔ ابراہیم نے اپنی قوم سے کہا ہم تم سے اور تمھارے باطل معبودوں سے بری الذمہ ہوں۔ (الممتحنۃ:4)