وَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَٰنُ الرَّحِيمُ
تمہارا الٰہ ایک ہی الٰہ ہے، اس کے سوا [١ـ٢٠] کوئی الٰہ نہیں۔ وہ نہایت مہربان بڑا رحم کرنے والا ہے
فہم القرآن : (آیت 163 سے 164) ربط کلام : جس طرح تمہارا رسول، قرآن، قبلہ اور دین ابراہیم ایک ہے اسی طرح تمہارا معبودِ بر حق بھی ایک ہی ہے۔ اب اس کی الوہیت کے دلائل سنو اور ان پر غور کرو! وہ ایک ہی الٰہ ہے‘ حاکم مطلق، معبود اور مسجود وہی بحروبرّ، زمین و آسمان‘ اور فضاؤں پر کلی اختیار رکھنے والا ہے۔ وہ ہر چیز کا خالق اور واحد مالک ہونے کے باوجود اپنے اختیارات ظلم وزیادتی کی بنیاد پر نہیں بلکہ نہایت ہی رحم وکرم کی اساس پر استعمال کرتا ہے۔ کائنات کے ذرّے ذرّے پر اس کی شفقت ومہربانی کی گھٹائیں برس رہی ہیں۔ اس کی ذات اور شان کی جھلک دیکھنا چاہتے ہو تو غور کرو کہ اس نے زمین و آسمان کو کس طرح پیدا کیا بظاہر زمین ایک ہی دکھائی دیتی ہے لیکن یہ تہ بہ تہ سات طبقات پر بچھائی گئی ہے۔ پھر جس زمین پر تمہارا ٹھکانہ اور بسیرا ہے‘ اس کی ہزاروں اقسام اور قطعات ہیں۔ کہیں یہ زمین ہزاروں میلوں تک ریت کی شکل میں حد نظر تک سراب کا نقشہ پیش کررہی ہے۔ کہیں سیم و تھور کی وجہ سے پانی کا منظر پیش کرتی ہے۔ پھر کسی مقام پر زمین پوٹھو ہار کا روپ دھار لیتی ہے اور اس کے سینہ پر اربوں سنگلاخ ریزے دکھائی دیتے ہیں‘ کہیں ٹیلوں اور پہاڑوں کا سلسلہ جاری ہے‘ اور کہیں ڈھلوان کی صورت میں درجنوں فٹ نیچے ہی نیچے چلی جاتی ہے۔ ایک طرف اس کی چھاتی پر سر سبز وشاداب باغات ہیں اور دوسری طرف صحراء وبیابان کا لامتناہی سلسلہ ہے۔ اس کا ایک حصّہ ایک بیج کو اپنی گود میں لے کر اس کی نشوونما کرتا ہے‘ دوسراحصّہ اسی بیج کو تلف کردیتا ہے۔ زمین کے ایک حصہ پر ایک فصل لہلہا رہی ہوتی ہے‘ جب کہ اس کے ساتھ ہی دوسرا رقبہ اس فصل کو اگانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہی صورت زمین کی تہوں کے اندر پائی جاتی ہے۔ ایک علاقے میں کوئلے کے ذخائر ہیں تو اس کے ساتھ والی زمین سونے اور چاندی کے خزانے لیے ہوئے ہے۔ ایک جگہ پانی اتنا کڑواہے کہ زبان کاٹ رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی زیر زمین میٹھے پانی کا دریا بہہ رہا ہے۔ یہ زمین اپنے اوپر پہاڑوں، دریاؤں کھربوں انسانوں، حیوانات اور دیگر اشیاء کا بوجھ اٹھانے کے باوجود نہ جھکتی ہے نہ تھکتی ہے۔ اَب آسمان کو دیکھو کہ وہ لاکھوں کروڑوں سالوں سے بغیر ستونوں کے سائبان بنا ہوا ہے۔ کیا مجال ہے کہ ایک انچ بھی اوپر نیچے ہوپائے۔ اس میں غور کے ساتھ دیکھنے سے بھی کوئی جھول نظر نہیں آتا۔ یہاں تک کہ نہ اس کا رنگ بدلا ہے اور نہ اس میں کوئی دراڑ واقع ہوئی ہے‘ جب کہ اس کا بنیادی مادہ دھواں قرار دیا گیا ہے ( الدخان :10) حالانکہ ایک آسمان کی موٹائی اور ایک سے دوسرے تک کا فاصلہ پانچ سو سال کی مسافت بیان کیا گیا ہے۔[ مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب مسند السابق] رات اور دن کے فرق کو دیکھا جائے تو رات ٹھنڈی اور دن گرم ہے۔ رات سر شام ہی تاریکی کا نقاب اوڑھ لیتی ہے جب کہ دن ہر جگہ روشن دکھائی دیتا ہے۔ رات کو اکثر فصلیں نمو پاتی ہیں جب کہ دن کی گرمی اور روشنی پھلوں کے پکنے میں مدد دیتی ہے۔ کبھی رات اپنے دامن کو طویل کردیتی ہے اور کبھی دن اس کی چادر کو لپیٹ کر اسے مختصر کرتے ہوئے خود طوالت اختیار کرلیتا ہے۔ پھر سال میں ایسے اوقات بھی آتے ہیں کہ دونوں اپنی طوالت کے لحاظ سے یکساں ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد مسلسل ان کے درمیان گھٹنے اور بڑھنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے کبھی دن صبح کے وقت بڑھنا شروع ہوتا اور کبھی دونوں جانب سے سکڑنا شروع ہوتا ہے۔ سمندر کے سینے پر چلنے والی کشتیوں اور بڑے بڑے جہازوں کی طرف توجہ کی جائے تو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ جو پانی اپنے اوپر ایک سوئی کو برداشت نہیں کرسکتا اسی پانی کی لہریں کشتیوں اور جہازوں کو ساحل مراد تک پہنچانے میں خدّام بنی ہوئی ہیں جو ٹنوں کے حساب سے بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں‘ اور نقل وحمل کا یہ سب سے بڑا اور مفید ترین ذریعہ ہیں۔ اس طرح ابتدائے آفرینش سے ہی دنیا کی سب سے بڑی تجارت بحری راستوں کے ذریعے ہی ہورہی ہے اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اب اس اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اندازہ کیجیے جو آسمان سے بارش کی صورت میں خاص مقدار اور رفتار سے پانی نازل کرتا ہے جس سے پھول کی نازک ترین پتی بھی غسل کرتی اور پیاس بجھاتی ہے۔ اس طرح جو زمین موت کی ویرانی کا ہولناک منظر پیش کررہی تھی چند لمحوں میں اس میں جل تھل کا سماں دکھائی دیتا ہے۔ جس سے انسان ہی نہیں بلکہ زمین پر رینگنے والے حشرات الارض بھی برابر مستفید ہوتے ہیں۔ پھر ہوا اور اس کی رفتار پر غور کیجیے اگر اللہ تعالیٰ ایک لمحہ کے لیے ہوا کو رنگ دار بنادے تو آنکھیں ہونے کے باوجود دیدہ ور اندھے کی طرح ٹھوکریں کھاتا پھرے۔ یہ ہوا ہی تو ہے جو سمندر کے کڑوے کسیلے پانی کو جراثیم اور مہلک گیسوں سے پاک کر کے بلندیوں کی مخصوص سطح تک لے جاتی ہے۔ پھر ان بادلوں کو دھکیل کر وہاں پہنچادیتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ بادلوں کو برسنے کا حکم دیتا ہے۔ بسا اوقات وہ برسنے کے قریب ہوتے ہیں لیکن چند لمحوں میں ہوا بھاری بھر کم بادلوں کو کہیں اور ہانک کرلے جاتی ہے یہ قدرت کے وہ عظیم الشان آٹھ نشانات ہیں‘ جن میں کوئی بھی اس اِلٰہِ بر حق کا شریک وسہیم نہیں ہے۔ اگر تم عقل ودانش کا معمولی استعمال بھی کرو تو ان چیزوں کے پیدا کرنے والے خالق کو ہر اعتبار سے ایک مانے اور یہ کہے بغیر نہ رہ سکو۔ ﴿فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ﴾ ” اللہ جو سب سے بہتر بنانے والا ہے بڑا ہی بابرکت ہے“ [ المومنون :14] مسائل : 1۔ اللہ ہی معبودِ بر حق ہے۔ 2۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ 3۔ آسمانوں و زمین کی پیدائش اور ہر چیز کی تخلیق میں دانش مندوں کے لیے عبرت کے دلائل ہیں۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ ہی الٰہ اور رب ہے : 1۔ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں۔ (النساء :87) 2۔ معبود حقیقی صرف اللہ ہے۔ (النساء :171) 3۔ اللہ کے علاوہ کوئی خالق نہیں۔ (فاطر :3) 4۔ اللہ رحمٰن ورحیم ہے۔ (الفاتحۃ:3) 5۔ اللہ ہی رزّاق ہے۔ (الذاریات :58) 6۔ اللہ ہی مشکل کشا ہے۔ (الانعام :17) 7۔ اللہ ہی حاجت رواہے۔ (الانبیاء :87) لیل ونہار کی گردشیں : 1۔ رات دن ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہیں۔ (الاعراف :54) 2۔ رات دن کو اور دن رات کو ڈھانپ لیتا ہے۔ (الزمر :5) 3۔ رات اور دن کا بڑھنا، گھٹنا۔ (الحدید :6) 4۔ رات آرام اور دن کام کے لیے ہے۔ (الفرقان :47)