ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۖ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ
(اے نبی )! یہ ( قصہ بھی) غیب کی خبروں سے ہے جس کو ہم آپ کی طرف [٩٧] وحی کر رہے ہیں۔ آپ اس وقت ان کے پاس تو نہیں تھے۔ جب برادران یوسف نے ایک بات پر اتفاق کرلیا تھا اور اسے عملی جامہ پہنانے کی مکارانہ سازش کر رہے تھے
فہم القرآن : (آیت 102 سے 104) ربط کلام : اس سورۃ کی آیت : 7میں اہل مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں جو سوال کیا ہے اگر تم غور کرو تو اس میں تمہارے لیے سامان عبرت ہے۔ پورا قصہ بیان کرکے اس کو مشرکین مکہ پر منطبق کردیا ہے۔ اے پیغمبر (ﷺ) ! یوسف (علیہ السلام) کا واقعہ بیان ہوا یہ ہم نے آپ کی طرف وحی کیا ہے۔ جو آپ کے لیے غیب تھا۔ یعنی آپ اس واقعہ کو نہیں جانتے تھے، نہ آپ اس وقت موجود تھے جب برادران یوسف (علیہ السلام) نے ایک جگہ جمع ہو کر یہ سازش کی تھی۔ یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں مکہ والوں نے آپ سے سوال کیا۔ جس کے جواب میں ہم نے تفصیلی سورت آپ پر نازل فرمائی۔ یاد رکھیں آپ جتنا بھی ان کے ایمان کی کوشش اور تمنا کریں ان کی اکثریت ایمان نہیں لائے گی۔ یہ لوگ سوچتے نہیں کہ آپ ان کی ہدایت کے لیے نہایت دلسوزی کے ساتھ صبح وشام محنت کر رہے ہیں اس پر آپ نے ان سے کوئی اجروصول نہیں کرنا۔ نبی اکرم (ﷺ) کی انتہائی کوشش تھی کہ لوگ شرک وبدعت اور ہر قسم کی رسومات چھوڑ کر حلقہ اسلام میں داخل ہوجائیں۔ اس کے لیے رات کو اٹھ کر دعائیں کرتے اور دن کے وقت انتھک کوشش فرماتے کہ کسی نہ کسی طریقہ سے لوگ ہدایت قبول کرلیں۔ لیکن آپ کے مخاطبین کی اکثریت کی حالت یہ تھی کہ وہ آپ (ﷺ) سے دلیل یا معجزہ طلب کرتے جب ان کی خواہش پر کوئی معجزہ یا دلیل نازل ہوتی تو وہ قریب آنے کی بجائے پہلے سے بھی سے دور ہوجاتے تھے۔ اس پر آپ (ﷺ) کو مختلف الفاظ اور انداز میں تسلی دی جاتی کہ آپ دلگیر ہونے کی بجائے اپنا کام کرتے جائیں۔ یہاں آپ (ﷺ) کی تسلی کے لیے فرمایا گیا ہے کہ آپ جس قدر چاہیں خواہش اور کوشش فرمائیں ان کی اکثریت ایمان نہیں لائے گی۔ یا درہے کہ ایمان ایسی گرانمایہ نعمت ہے جو خواہش اور کوشش کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ اے رسول (ﷺ) ! آپ کے لیے یہ بات بھی اطمینان بخش ہے کہ آپ ان سے کسی اجر کے طلب گار نہیں ہیں آپ کا اجر آپ کے رب کے پاس پوری طرح محفوظ ہے جو کسی طرح کم ہونے والا نہیں۔ اس کے ساتھ آپ کے مخالفین کو سمجھایا گیا ہے کہ ذرا سوچو اور غور کرو کہ نبی (ﷺ) جو بے لوث محنت کر رہے ہیں اس میں ان کا کیا مفاد ہے؟ وہ تو اپنے دن رات تمہارے فائدے کے لیے وقف کیے ہوئے ہیں۔ جو کچھ وہ فرماتے اور آپ کو بتلاتے ہیں اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جاتا ہے جس پر تمہیں ہر صورت غور کرنا چاہیے۔ مکر کا معنی دھوکہ، فریب، حیلہ وتدبیر اور سازش کرنا ہے اگر مکر کے لفظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کا معنی تدبیر کرنا ہوتا ہے۔ مسائل: 1۔ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ 2۔ رسول اللہ (ﷺ) اس وقت موجودنہ تھے جب یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے مکر کیا تھا۔ 3۔ لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لایا کرتی۔ 4۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے نصیحت ہے۔ تفسیر بالقرآن : نبی اکرم (ﷺ) غیب نہیں جانتے تھے : 1۔ یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں آپ اس وقت موجود نہ تھے۔ (یوسف :12) 2۔ میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں۔ (الانعام :50) 3۔ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو اپنے لیے ساری بھلائیاں جمع کرلیتا۔ (الاعراف :188) 4۔ اللہ تعالیٰ کے سوا آسمان و زمین کا غائب کوئی نہیں جانتا۔ ( النمل :65) 5۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو غیب پر مطلع نہیں کرتا۔ (آل عمران :179) 6۔ اللہ کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اللہ کے علاوہ انھیں کوئی نہیں جانتا۔ (الانعام :59) 7۔ کہہ دیجیے غیب اللہ کے لیے ہے تم انتظار کرو میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔ (یونس :20) 8۔ اللہ ہی غیب کو جاننے والا ہے اور وہ کسی پر غیب ظاہر نہیں ہوتا۔ (الجن :26)