قَالُوا يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ
وہ کہنے لگے : ابا جان! ہمارے لئے ہمارے گناہوں کی معافی مانگئے واقعی ہم ہی خطاکار تھے
فہم القرآن : (آیت 97 سے 98) ربط کلام : برادران یوسف کا گھر واپس جانا اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے معافی کا خواستگار ہونا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹے واپس آئے تو کیا دیکھتے ہیں باپ انتہائی خوش وخرم‘ ہشاش بشاش ہے اور ان کی بینائی بھی صحیح ہوچکی ہے۔ والد گرامی کو سلام عرض کرنے کے بعد سب مل کر اپنے گناہ کا اعتراف کرکے درخواست کرتے ہیں کہ اباجان! ہم نے یوسف (علیہ السلام) پر بہت زیادتی کی جس سے آپ کو طویل عرصہ تک دکھ اٹھانا پڑا۔ ہم اس پر سچے دل کے ساتھ آپ سے معافی مانگتے ہیں۔ آپ ہمارے عظیم باپ ہیں اور ہم اپنے کیے پر انتہائی شرمندہ ہیں۔ ہماری عاجزانہ درخواست ہے کہ آپ ہمیں معاف کردیں۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) ایک مشفق باپ ہونے کے ساتھ اللہ کے نبی اور انبیاء ( علیہ السلام) کی اولاد تھے۔ انہوں نے کوئی بات کرنے کے بجائے فی الفور فرمایا کہ نہ صرف تمہیں معاف کرتا ہوں بلکہ عنقریب میں اپنے رب سے تمہارے لیے بخشش کی دعا کروں گا۔ میرا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے ہر گناہ معاف کرنے والا ہے۔ اہل تفسیر نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے حوالے سے لکھا ہے۔ عنقریب معافی مانگنے سے تہجد کا وقت مراد تھا۔ کیونکہ دعا کی قبولیت کے اوقات میں یہ سب سے زیادہ اللہ کے ہاں قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔ اس لیے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تمہارے لیے عنقریب دعا کروں گا۔ اس واقعہ میں اولاد کے لیے حکم ہے کہ اگر اس سے ماں باپ کی شان میں گستاخی ہوجائے تو اولاد کا فرض ہے کہ وہ جلد از جلد ماں باپ سے معافی مانگنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے۔ کیونکہ والدین کی نافرمانی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہے والدین کے لیے یہ سبق ہے کہ بے شک اولاد کتنی ہی نافرمان کیوں نہ ہو وہ معافی اور درگزر کا رویہ اختیار کریں۔ (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ سَاَلْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) اَیُّ الْاَعْمَالِ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی قَال الصَّلٰوۃُ لِوَقْتِہَا قُلْتُ ثُمَّ اَیٌّ؟ قَالَ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ قُلْتُ ثُمَّ اَیٌّ قَالَ الْجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنِیْ بِہِنَّ وَلَوِ اسْتَزَدْتُّہٗ لَزَادَنِیْ)[ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فَضْلِ الصَّلاَۃِ لِوَقْتِہَا] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی محترم (ﷺ) سے یہ سوال کیا کہ اعمال میں اللہ تعالیٰ کو کون ساعمل زیا دہ پسند ہے؟ آپ (ﷺ) ارشاد فرماتے ہیں فرض نماز اس کے وقت پر ادا کرنا۔ میں نے عرض کی اس کے بعد کون سا عمل بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا والدین کے ساتھ بہترسلوک کرنا۔ میں نے پھر عرض کی ان کے بعد کون ساعمل بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا۔ ابن مسعود (رض) کہتے ہیں اگر میں اس موقعہ پر مزید سوال کرتا تو آپ اس کا بھی جواب عنایت فرماتے۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَجُلاً أَتَی النَّبِیَّ (ﷺ) فَقَالَ یَا رَسُول اللّٰہِ إِنِّیْٓ أَصَبْتُ ذَنْبًا عَظِیْمًا فَہَلْ لِیْ مِنْ تَوْبَۃٍ قَالَ ہَلْ لَکَ مِنْ أُمٍّ قَال لاقَالَ ہَلْ لَکَ مِنْ خَالَۃٍقَالَ نَعَمْ قَالَ فَبِرَّہَا)[ باب مَا جَآءَ فِی بِرِّ الْخَالَۃِ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں ایک آدمی نبی کریم (ﷺ) کے پاس آیا اور عرض کی اے اللہ کے رسول ! مجھ سے بہت بڑا گناہ سرزد ہوگیا ہے۔ کیا میرے لیے توبہ ہے آپ نے فرمایا کیا تیری ماں ہے ؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ (ﷺ) نے پوچھا کیا تیری خالہ ہے اس نے کہا ہاں۔ آپ نے فرمایا اس کی خدمت کرو۔“ مسائل: 1۔ والدین سے دعا کروانی چاہیے۔ 2۔ اپنی غلطی کا اعتراف کرلینا چاہیے۔ 3۔ والدین کو بچوں کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ 4۔ ماں باپ کو اولاد کی غلطی معاف کردینی چاہیے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے : 1۔ میں اللہ سے مغفرت طلب کروں گا بے شک وہ بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔ (یوسف :98) 2۔ بے شک تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔ (الانعام :145) 3۔ اللہ جسے چاہے معاف کر دے، جسے چاہے عذاب دے، وہ بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔ (آل عمران :129) 4۔ اللہ نیک لوگوں کو اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا یقیناً وہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (التوبۃ:99) 5۔ اللہ سے بخشش طلب کرو یقیناً وہ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ (البقرۃ :199) 6۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں سکتے اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ ( النحل :18)