سورة البقرة - آیت 157

أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

ایسے ہی لوگوں پر ان کے رب کی طرف سے عنایات اور رحمتیں برستی ہیں ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہوتے ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : صبروشکر اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے‘ مشکل وقت میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنیوالے اور مصائب میں جزع‘ فزع کرنے کی بجائے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنے والے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور ہدایت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ صبر کا معنی ہے کہ آدمی مصیبت کے وقت اپنے آپ پر قابو پائے اور ہر حال میں اپنے آپ کو شریعت کا پابند رکھے۔ جب کوئی اپنے آپ کو رب کی رضا اور اس کے احکام کے تابع رکھ کر آزمائش میں ثابت قدم رہتا ہے تو اس کے صلہ میں وہ رب کی رحمت اور عنایات کا حق دار ٹھہرتا ہے۔ اللہ کی رحمت وعنایات کے مستحق لوگ ہی ہدایت یافتہ قرار پاتے ہیں۔ کیونکہ اس فرمان سے قبل نعمتوں کا چھن جانا، جگر گوشوں کی جدائی اور آزمائشوں سے دوچار ہونا یقینی امر قرار دیا ہے۔ ان کی تلافی اور مومنوں کی تسلی کے لیے صلوات اور رحمت کے نزول کا اطمینان دلایا جارہا ہے۔ عنایات سے مرادیہاں چھن جانے والی نعمتوں اور سہولتوں کی تلافی ہوگی اور رحمت سے نعمتوں میں استقرار اور ان کی وسعتوں میں اضافہ ہوگا۔ رب کریم کی رحمت سے سوکھی ہوئی کھیتیاں سرسبز وشاداب، ویران بستیاں آباد و بارونق، پریشان و پشیمان دل ایقان واطمینان کا گہوارہ اور گناہوں سے آلودہ دامن پاک وشفاف ہوجاتے ہیں۔ یہ اس کی رحمت ہی تو تھی جس نے حضرت ایوب (علیہ السلام) کو دوبارہ اولاد، مال اور صحت وتندرستی سے نوازا تھا۔ اس بے پایاں رحمت وعنایات کا ہی صلہ تھا کہ صحابہ کرام {رض}نے جھونپڑیاں چھوڑیں اور مکانات کے مالک بنے، معمولی مال چھوڑا تو اس کے بدلے میں دولت کے انبار نصیب ہوئے، دین کی خاطر دنیا کی نظر میں عارضی طور پر خفت اٹھانی پڑی تو اس کے بدلے میں عزت وعظمت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے۔ مکہ چھوڑا تو دنیا کے حکمران قرار پائے۔ دنیا و آخرت کی نعمتیں، سہولتیں، عزتیں اور رفعتیں اللہ کی رحمت کا پر تو ہیں۔ اسی بنا پر سرور دوعالم {ﷺ}یہ دعا کیا کرتے تھے : (اَللّٰھُمَّ رَحْمَتَکَ اَرْجُوْ فَلَا تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ وَّاَصْلِحْ لِیْ شَأْنِیْ کُلَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الأدب، باب مایقول إذا أصبح] ” اے اللہ! میں تیری رحمت کا امید وار ہوں مجھے لمحہ بھر بھی میرے نفس کے سپرد نہ کرنا، میرے تمام کاموں کو سنوارنا‘ تیرے سوا کوئی معبودِ حق نہیں۔“ مسائل : 1۔ صاحب ایمان، مستقل مزاج اور صابر لوگوں پر اللہ کا فضل و کرم اور ان کو مزید ہدایت سے نوازا جاتا ہے۔