وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِينَةِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَن نَّفْسِهِ ۖ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ۖ إِنَّا لَنَرَاهَا فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
اور شہر کی عورتیں آپس میں چرچا کرنے لگیں کہ عزیزمصر کی بیوی (زلیخا) اپنے نوجوان غلام کو اپنی طرف ورغلانا چاہتی ہے اور اس کی محبت اس کے دل میں گھر کرچکی ہے۔ ہم تو اسے واضح طور پر گمراہی (محبت) میں مبتلا دیکھ رہی ہیں
فہم القرآن : (آیت 30 سے 32) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ عزیز مصر کے معاملہ کو رفع دفع کرنے کے باوجود بات امراء کے گھروں تک پہنچی۔ جوں جوں بات امراء کے گھرانوں میں پہنچتی گئی ہر عورت نے اپنے اپنے انداز سے اس پر تبصرہ کیا۔ سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ عزیز مصر کی بیوی کس قدر جذباتی اور بے وقوف ہے کہ وہ زر خرید غلام پر فریفتہ ہوچکی ہے۔ ﴿شَغَفَھَاحُبًّا﴾ کے بارے میں اہل لغت نے لکھا ہے کہ اس سے مراد دل کے اندر وہ خلا، حلقہ یا وہ ہلکی سی جھلی ہے جو دل کے اوپر دکھائی دیتی ہے۔ اس کا معنٰی دل پر محبت کی چوٹ لگنا بھی لیا گیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ عزیز مصر کی بیوی پر حضرت یوسف کی غالب ہوچکی تھی اور وہ اپنے زر خرید غلام کے ہاتھ اپنا دل ہار بیٹھی۔ جب ان باتوں کا عزیز مصر کی بیوی کو علم ہوا تو اس نے تمام عورتوں کو ایک دعوت میں مدعو کیا۔ جس میں شاندار طریقے کے ساتھ تکیے سجائے گئے اور ہر کسی کے سامنے کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ پھل رکھتے ہوئے ایک ایک چھری رکھ دی گئی۔ ممکن ہے اس وقت بھی چھری کانٹے سے کھانے کا رواج ہو۔ اس کے بعد عزیز مصر کی بیوی نے کسی بہانے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ان عورتوں کے سامنے بلایا۔ جب یوسف (علیہ السلام) اندر آئے تو عورتوں نے نظریں اٹھا کر ان کی طرف دیکھا تو خودسپردگی کے عالم میں اپنے ہاتھ زخمی کرلیے۔ اس کے ساتھ ہی بے ساختہ ان کے منہ سے نکلا۔ یہ بشر نہیں بلکہ ایک معزز فرشتہ ہے۔ ان کے جذبات دیکھ کر اس عورت کو اور حوصلہ ملا۔ جس بنا پر اس نے سب کے سامنے کھل کر کہا کہ جس کے بارے میں تم مجھے ملامت کرتی تھیں۔ تم نے دیکھ لیا کہ یوں ہی نہیں میں نے اسے اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر یہ بچ نکلا۔ اگر اس نے اب میری حکم عدولی کی تو اسے جیل خانہ میں ڈال کر ذلیل کیا جائے گا۔ یوسف (علیہ السلام) کے حسن و جمال کو دیکھتے ہی نہ صرف انہوں نے اپنے ہاتھ زخمی کرلیے بلکہ یوسف (علیہ السلام) کے حسن و صورت سے متاثر ہو کر ایک دوسرے سے بڑھ کر فریفتہ ہو رہی تھیں۔ گویا کہ یہاں یک نہ شد دو شد سے بھی معاملہ کہیں آگے گزر چکا تھا۔ لیکن دوسری طرف اس ماہ جبیں کی کیفیت یہ تھی کہ نگاہیں زمین پر گڑھی ہوئی تھیں۔ گناہ کے ماحول سے پریشان اور اللہ کے ڈر سے خوفزدہ ہو کر دل ہی دل میں اللہ کی پناہ مانگ رہے ہیں۔ اس واقعہ سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ اس زمانے میں مصر کے پوش محلوں اور (ہائی جینٹری) High Gentry کی اخلاقی حالت کیا تھی کہ سر عام اور کھلے الفاظ میں ایک نہیں سب بیگمات خود سپردگی کی کیفیت میں ایک غیر محرم کے سامنے نسوانی جذبات کا اظہار کر رہی ہیں۔ لیکن آزادی نسواں کے پرستار انہیں روکنے ٹوکنے کے لیے تیار نہ تھے۔ جس طرح آج یورپ، امریکہ بلکہ بعض اسلامی ملکوں میں بھی یہ ماحول پیدا ہوچکا ہے جو کسی بھی معاشرے کی تباہی کے سوا کوئی نتیجہ برآمد نہیں کرسکتا۔ حسن یوسف : (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ)۔۔ ثُمَّ عَرَجَ بِیْٓ إِلَی السَّمَآء الثَّالِثَۃِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِیْلُ فَقِیْلَ مَنْ أَنْتَ قَالَ جِبْرِیْلُ قِیْلَ وَمَنْ مَّعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ (ﷺ) قِیْلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِیُوْسُفَ إِذَا ہُوَ قَدْ أُعْطِیَ شَطْرَ الْحُسْنِ فَرَحَّبَ وَدَعَا لِیْ بِخَیْرٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب الاسرا] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا۔۔ پھر مجھے تیسرے آسمان پر چڑھایا گیا جبرائیل (علیہ السلام) نے دروازہ کھلوانا چاہا پوچھا گیا کون ہے جواب ملا جبرائیل۔ پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے۔ جبرائیل (علیہ السلام) کہنے لگے محمد (ﷺ) انہوں نے دریافت کیا کہ آپ کو لینے کے لیے بھیجا گیا تھا جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ہاں انہیں لینے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ دروازہ کھول دیا گیا وہاں یوسف (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی جبکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ساری کائنات کے حسن کا آدھا حصہ عطا فرمایا تھا۔ تو اس نے خوش آمدید کہا اور میرے لیے بھلائی کی دعا کی۔“ مسائل: 1۔ یوسف (علیہ السلام) کو دیکھ کر عورتوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے۔ 2۔ اللہ کا نبی صورت و سیرت کے لحاظ سے اعلیٰ ترین انسان ہوتا ہے۔ 3۔ بعض عورتیں جذبات کی خاطر اپنی عزت بھی داؤ پر لگادیتی ہیں۔