قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُهُ بَيَاتًا أَوْ نَهَارًا مَّاذَا يَسْتَعْجِلُ مِنْهُ الْمُجْرِمُونَ
آپ ان سے پوچھئے : ذرا سوچو تو اگر تم پر اللہ کا عذاب رات کو یا دن کو آجائے تو پھر مجرم لوگ آخر [٦٦] کس چیز کی جلدی مچا رہے ہیں
فہم القرآن : (آیت 50 سے 53) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ اے پیغمبر (ﷺ) ! ان سے استفسار فرمائیں کہ اگر ان پر اللہ کا عذاب دن کے وقت آئے یا رات کی کسی گھڑی میں آئے تو اسے کون ٹال سکتا ہے؟ ان سے یہ بھی سوال کیجیے کہ مجرمو! تم کس بات کی جلدی مچاتے ہو۔ مجرمانہ ذہن کی یہ علامت ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف اچھی بات قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے بلکہ اکثر دفعہ اچھائی کی بجائے بری بات اور اس کے انجام کے لیے عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو انتباہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کیا انہیں معلوم نہیں کہ جب اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے تو پھر بڑے بڑے مجرم ایمان لانے کا اظہار کرتے ہیں۔ مگر اس وقت اللہ تعالیٰ کے ملائکہ جواب دیتے ہیں۔ اب تمہارے ایمان لانے کا کیا فائدہ ؟ جب کہ تم اس سے پہلے حقیقت قبول کرنے کی بجائے عذاب کا مطالبہ کرتے تھے۔ اس وقت ان کو یہ بھی کہا جاتا ہے اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے کیے کی سزا پاؤ کیونکہ تم واقعی اس عذاب کے مستحق ہو۔ اے رسول (ﷺ) ! یہ آپ سے پوچھتے ہیں کیا واقعی ہم عذاب میں گرفتار ہوں گے؟ ان سے فرمائیے کہ مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب برحق ہے۔ جب تم پر مسلط ہوگا تو تم کسی طرح بھی اسے ٹال نہیں سکو گے۔ کیا تم نے مجرم اقوام کی تاریخ پر غور نہیں کیا کہ جب ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب صبح یا رات کے وقت آیا تو وہ کس طرح چیخ و پکار کرتے ہوئے معافی مانگ رہے تھے۔ ذرا فرعون اور آل فرعون کے واقعہ پر ہی غور کرو کہ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں دریا میں ڈبکیاں دیں تو فرعون نے کس طرح دہائی دیتے ہوئے کہا تھا : ﴿ قَالَ آَمَنْتُ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا الَّذِی اٰمَنَتْ بِہِ بَنُوْ إِسْرَاءِیلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ﴾[ یونس :90] میں موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لاتا ہوں۔ لیکن اس کے ایمان کو مسترد کردیا گیا یہی حالت مجرم قوم کی ہوا کرتی ہے اور اسی کرب میں مجرم موت کے وقت مبتلا ہوتا ہے اس وقت مجرم دل ہی دل میں ایمان کا اظہار کرتا ہے مگر موت کے فرشتے اسے جھڑکیاں دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب تمہیں ہمیشہ عذاب میں رہنا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إِنَّ اللّٰہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات، باب قبول توبۃ العبد مالم یغرغر] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ بندے کی سانس اٹکنے سے پہلے پہلے توبہ قبول فرماتا ہے۔“ موت کے وقت مجرموں کے ساتھ ملائکہ کا سلوک : ﴿وَلَوْتَرَی إِذِ الظَّالِمُوْنَ فِی غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَاءِکَۃُ بَاسِطُو أَیْدِیْہِمْ أَخْرِجُوْا أَنْفُسَکُمُ الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُولُوْنَ عَلَی اللَّہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ اٰ یَا تِہِ تَسْتَکْبِرُوْنَ﴾[ الانعام :93] ” موت کے وقت ملائکہ کی جھڑکیاں جب مجرم موت کی بیہوشیوں میں ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہتے ہیں اپنی جانیں نکالو آج تمہیں رسوا کن عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ کیونکہ تم اللہ پرناحق باتیں بناتے ہو اور اس کی آیات سے تکبر کرتے ہو۔“ ﴿وَلَوْتَرٰٓی إِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا الْمَلَائِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوہَہُمْ وَأَدْبَارَہُمْ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ)[ الانفال :50] ” اور کاش آپ اس حالت کو دیکھتے جب فرشتے کافروں کی روحیں قبض کر رہے ہوتے ہیں تو ان کے چہروں اور ان کی پشتوں پر ضربیں لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب جلانے والے عذاب کا مزا چکھو۔“ مسائل : 1۔ کچھ لوگ اللہ کے عذاب کے لیے جلدی مچاتے ہیں۔ 2۔ مجرموں کو اللہ کے عذاب کا مزا چکھنا پڑے گا۔ 3۔ انسان کو اسی کا بدلہ ملے گا جو وہ کرے گا۔ 4۔ نبی اکرم (ﷺ) سے کفار عذاب کے برحق ہونے کے متعلق پوچھتے تھے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو کوئی بھی ٹال نہیں سکتا۔ تفسیر بالقرآن :اللہ تعالیٰ کی پکڑ آجائے تو مجرموں کو کوئی نہیں بچا سکتا : 1۔ اللہ کا عذاب برحق ہے اور تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ (یونس :53) 2۔ کفار کے چہروں پر ذلت چھا جائے گی انہیں اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔ (یونس :27) 3۔ آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچ سکتا مگر جس پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ (ہود :43) 4۔ اس دن وہ پیٹھیں پھیر کر بھاگیں گے اللہ کی پکڑ سے انہیں کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔ (المومن :33) 5۔ اگر اللہ کسی کو تکلیف دے تو کون ہے جو اسے اس سے بچا سکے۔ (الاحزاب :17) 6۔ حضرت نوح نے اپنے بیٹے کو فرمایا آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں۔ (ہود :43) 7۔ جسے اللہ رسوا کرے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا۔ (الحج :18)