وَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل لِّي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ ۖ أَنتُم بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ
اور اگر وہ آپ کو جھٹلا دیں تو ان سے کہئے کہ میرے لئے میرا عمل ہے اور تمہارے لیے تمہارا۔ تم اس سے بری الذمہ ہو جو میں کرتا ہوں اور میں اس سے بری الذمہ ہوں جو تم کر رہے ہو
فہم القرآن : (آیت 41 سے 44) ربط کلام : قرآن مجید کا انکار کرنے والے حقیقت میں بہرے اور اندھے ہیں ان کو ان کے حال پر چھوڑنا ہی بہتر ہے۔ منکرین قرآن کو باربار چیلنج دیا گیا کہ اگر تم یہ الزام لگانے میں سچے ہو کہ رسول (ﷺ) نے قرآن مجید اپنی طرف سے بنالیا ہے تو پھر تم اس جیسی ایک سورت بنا لاؤ۔ لیکن اس چیلنج کا جواب دینے کی بجائے وہ یہی ہرزہ سرائی کرتے رہے۔ جس پر مزید بحث کرنے اور چیلنج دینے کی بجائے نبی اکرم (ﷺ) کو یہ حکم ہوا کہ آپ ان سے یہ کہہ کر بے مقصد بحث سے دامن بچائیں کہ میرے لیے میرا عمل اور تمہارے لیے تمہارا عمل ہے۔ قیامت کے روز ہر کوئی اپنے عمل اور کردار کا انجام دیکھ لے گا۔ لہٰذا تمہیں ہمارے عمل کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں ہوگی اور ہمیں تمہارے کردار کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔ ہر کسی نے اپنے کیے کا صلہ پانا ہے۔ اے نبی (ﷺ) ! ان میں ایسے لوگ بھی ہیں۔ جو بظاہر آپ کی بات سنتے ہیں۔ جو نہ سننے کے برابر ہے۔ اس طرح جیسے وہ بہرے ہوں یہ اس لیے ہے کہ وہ توجہ کے ساتھ سننے اور اس پر غور وفکر کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو ظاہری آنکھوں سے آپ کی طرف دیکھتے ہیں مگر ان کے دل کی آنکھیں بند ہوچکی ہیں۔ گویا کہ یہ بصیرت سے محروم ہیں۔ اس لیے آپ دل کے اندھوں کو ہدایت کی طرف نہیں لا سکتے۔ در حقیقت انہوں نے ظلم کرکے اپنے آپ پر گمراہی مسلط کرلیہے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا وہ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ قرآن مجید نے منکرین حق کے بارے میں یہ وضاحت بھی فرمائی ہے : ﴿أَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْأَرْضِ فَتَکُوْنَ لَہُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِہَا أَوْ اٰذَانٌ یَسْمَعُوْنَ بِہَا فَإِنَّہَا لَا تَعْمَی الْأَبْصَارُ وَلَکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ ﴾[ الحج :46] ” کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے دل ایسے ہوجاتے جو کچھ سمجھتے سوچتے اور کان ایسے جن سے وہ کچھ سن سکتے بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، اندھے تو دل ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔“ ان کے بارے میں سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : ﴿وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَہُمْ قُلُوْبٌ لَا یَفْقَہُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْیُنٌ لَا یُبْصِرُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَا یَسْمَعُوْنَ بِہَا أُوْلٰئِکَ کَالْأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ أُوْلٰئِکَ ہُمُ الْغَافِلُوْنَ﴾)[ الاعراف :179] ” ہم نے جہنم کے لیے بہت سی مخلوق جنوں اور انسانوں سے پیدا کی۔ ان لوگوں کو دل دیے گئے مگر وہ ان سے سوچتے نہیں ان کو آنکھیں عطا ہوئیں ان سے دیکھتے نہیں ان کے کان موجود ہیں مگر ان سے سنتے نہیں یہ لوگ چوپایوں سے بھی بدتر اور اپنے انجام سے غافل ہیں۔“ (عَنْ اَبِیْ ذَرِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) فِیْمَا یَرْوِیْ عَنِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی اَنَّہٗ قَالَ یَا عِبَادِیْ اِنِّیْ حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلٰی نَفْسِیْ وَجَعَلْتُہٗ بَیْنَکُمْ مُحَرَّمًا فَلَا تَظَالَمُوْا یَا عِبَادِیْ کُلُّکُمْ ضَآلٌّ اِلَّا مَنْ ھَدَیْتُہٗ فَاسْتَھْدُوْنِیْ اَھْدِکُمْ یَا عِبَادِیْ کُلُّکُمْ جَائِعٌ اِلَّا مَنْ اَطْعَمْتُہٗ فَاسْتَطْعِمُوْنِیْ اُطْعِمْکُمْ یَا عِبَادِیْ کُلُّکُمْ عَارٍ اِلَّا مَنْ کَسَوْتُہٗ فَاسْتَکْسُوْنِیْ اَکْسُکُمْ یَا عِبَادِیْ اِنَّکُمْ تُخْطِئُوْنَ باللّیْلِ وَالنَّھَارِ وَاَنَا اَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمیعًا فَاسْتَغْفِرُوْنِیْ اَغْفِرْ لَکُمْ ) [ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الظلم ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا‘ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے۔ میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنی ذات پر حرام کرلیا ہے اور تمہارے درمیان بھی ظلم ناجائز قرار دیا ہے۔ اس لیے ایک دوسرے پر ظلم نہ کیا کرو۔ میرے بندو! تم میں سے ہر ایک گمراہ ہے ماسوا اس کے جس کو میں ہدایت سے سرفراز کروں۔ پس تم مجھ سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گا‘ تم میں سے ہر ایک بھوکا ہے سوائے اس کے جس کو میں کھلاؤں۔ پس تم مجھ سے کھانا مانگومیں تمہیں کھلاؤں گا۔ میرے بندو! تم سب ننگے ہو سوائے اس کے جس کو میں پہنا دوں گا۔ پس تم مجھ سے پہناوا طلب کرو میں تمہیں پہناؤں گا۔ میرے بندو! تم رات دن گناہ کرتے ہو‘ میں تمام گناہوں کو بخش دینے والا ہوں۔ مجھ سے بخشش طلب کرو‘ میں تمہیں بخش دوں گا۔“ مسائل : 1۔ قرآن مجید جھٹلانے والوں کو ان کے جھوٹ کی سزا مل کر رہے گی۔ 2۔ ہر کسی کو اس کے اعمال کے مطابق جزاو سزا ملے گی۔ 3۔ جسے اللہ نہ سنانا چاہے اسے کوئی نہیں سنا سکتا۔ 4۔ جسے اللہ راہ نہ دکھانا چاہے اسے کوئی راہ نہیں دکھلا سکتا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ 6۔ لوگ اپنی جانوں پر خود ہی ظلم کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر رحم کرتا ہے زیادتی نہیں کرتا : 1۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ اپنی جانوں پر خود ظلم کرتے ہیں۔ (یونس :44) 2۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ایک ذرہ کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔ (النساء :40) 3۔ ہر شخص اپنے اعمال کو حاضر پائے گا اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ (الکھف :39) 4۔ قیامت کے دن ہر کسی کو اس کے اعمال کا صلہ دیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ (المومن :17)