سورة یونس - آیت 39

بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

بلکہ انہوں نے اس چیز [٥٥] کو جھٹلا دیا جس کا وہ اپنے علم سے احاطہ نہ کرسکے حالانکہ ابھی تک اس کا مال [٥٦] سامنے ہی نہیں آیا۔ اسی طرح ان لوگوں نے بھی جھٹلا دیا جو ان سے پہلے تھے پھر دیکھ لو، ظالموں کا کیا انجام ہوا ؟

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 39 سے 40) ربط کلام : کفار اور مخالفین نبوت کی قرآن مجید کے بارے میں جہالت۔ قرآن مجید کے بارے میں یہ کہنا کہ نبی کا بنایا ہوا ہے۔ حقیقتاً قرآن کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ جھٹلانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی جہالت اور کم فہمی کی وجہ سے قرآن مجید کی سچائی اور عظمت کا ادراک نہیں کرسکے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے جس ہولناک عذاب سے انہیں ڈرایا ہے اس میں یہ لوگ ابھی تک مبتلا نہیں ہوئے۔ حالانکہ تاریخ کا مطالعہ کرتے اور اپنے سے پہلی اقوام کا انجام دیکھتے تو انہیں قرآن کی سچائی اور اس کی عظمت کا علم ہوجاتا کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ کلام ہے۔ اگر ہم نے اس کا انکار کیا تو ہمارے ساتھ بھی وہ کچھ ہوگا جو ہم سے پہلے ظالموں کے ساتھ ہوا ہے۔ بہرحال ان میں کچھ لوگ ایمان لائیں گے اور کچھ لوگ ہرگز نہیں مانیں گے۔ اے رسول (ﷺ) ! آپ کا رب ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ اگر ان کے ظلم کے باوجود ان پر گرفت نہیں کر رہا ہے تو یہ اس کا اصول ہے کہ وہ ایک مدت تک ظالموں کو مہلت دیا کرتا ہے۔ تاکہ انہیں ظلم و تعدی کرنے میں کوئی حسرت نہ رہے۔ دوسری طرف ایمان والوں کو اچھی طرح پرکھ لیا جائے کہ وہ اپنے دعویٰ ایمان میں کس حد تک سچے اور لوگوں کے لیے کس قدر قابل عمل نمونہ ثابت ہوتے ہیں۔ ﴿وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا أَنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ خَیْرٌ لِأَنْفُسِہِمْ إِنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ لِیَزْدَادُوْا إِثْمًا وَلَہُمْ عَذَابٌ مُہِیْنٌ﴾[ آل عمران :178] ” کافر لوگ ہرگز یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ہم جو انہیں ڈھیل دے رہے ہیں یہ ان کے حق میں بہتر ہے بلاشبہ ہم انہیں صرف اس لیے ڈھیل دیتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ گناہ کرلیں اور ان کے لیے رسو اکن عذاب ہوگا۔“ مسائل : 1۔ اس بات کو نہیں جھٹلانا چاہیے جس بات کا علم انسان کے احاطہ معلومات سے باہر ہو۔ 2۔ اللہ کی کتابوں کی تکذیب پہلے لوگ بھی کیا کرتے تھے۔ 3۔ قرآن مجید کی تکذیب کرنے والوں کو پہلے لوگوں کا انجام سامنے رکھنا چاہیے۔ 4۔ کتاب اللہ پر ایمان لانے اور نہ لانے والے دونوں ہی ہمیشہ سے موجود ہیں۔ 5۔ اللہ تعالیٰ مفسدین کو اچھی طرح جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : فساد کرنے والے لوگ اور ان کا انجام : 1۔ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔ (یونس :40) 2۔ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کی اصلاح نہیں فرماتا۔ (یونس :81) 3۔ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (القصص :77) 4۔ فساد کرنے والوں کا انجام دیکھیے۔ (النمل :41) 5۔ فساد کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے اور آخرت میں ان کا بد ترین ٹھکانہ ہے۔ (الرعد :25) 6۔ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ (البقرۃ:205) 7۔ فساد پھیلانے والوں کو قتل کردیا جائے یا سولی پر لٹکا دیا جائے۔ (المائدۃ:33)