سورة یونس - آیت 25

وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَىٰ دَارِ السَّلَامِ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

(تم ایسی زندگی پر ریجھتے ہو) اور اللہ تمہیں سلامتی [٣٧] کے گھر (جنت) کی طرف بلاتا ہے اور وہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھلا دیتا ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 25 سے 26) ربط کلام : دنیا کی ناپائیداری اور بے ثباتی پر غور کرنے کا یہ نتیجہ نکلتا ہے اور نکلنا چاہیے کہ انسان عارضی اور ناپائیدار چیزوں پر دل لگانے کی بجائے دائمی اور مستقل چیز کی طرف توجہ کرے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور سلامتی کا گھر ہے۔ خوش قسمت ہے وہ انسان جس نے دنیا کی رعنائی اور دلفریبیوں سے اپنے آپ کو بچاکر صراط مستقیم پر گامزن رکھا جو سلامتی کا راستہ اور گھر ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اسی سلامتی کی دعوت دیتا ہے جب بندہ اپنی عاقبت کی فکر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ہدایت کے راستے پر گامزن کردیتا ہے ایسے خوش نصیب کے لیے دنیا میں سلامتی اور آخرت میں جنت ہوگی حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا ارشاد ہے کہ دارالسلام جنت کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ دنیا میں اچھے کام کرنے والوں کے لیے بہترین اجر ہوگا بلکہ ان کی نیکیوں سے کئی گنا زیادہ اجر عنایت کیا جائے گا۔ نہ یہ روسیاہ ہوں گے نہ ہی انہیں ذلت اٹھانا پڑے گی یہ لوگ جنتی ہیں اور اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ بعض اہل علم نے الحسنیٰ سے مراد جنت اور زیادۃ سے مراد اللہ تعالیٰ کا دیدار لیا ہے اس کا ثبوت حدیث میں اس طرح پایا جاتا ہے کہ جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے اور اس کی بہاریں لوٹ رہے ہوں گے تو ایک دن اللہ تعالیٰ جنتیوں سے استفسار فرمائیں گے کہ اے میرے بندو! بتاؤ کہ کسی اور چیز کی ضرورت ہے؟ جنتی اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے عرض کریں گے اے ہمارے رحیم و کریم رب ہم نے وہ کچھ پا لیا ہے جس کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اتنے میں نور کے حجاب اٹھ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنی ذات کی زیارت سے مشرف فرمائیں گے۔ (عَنْ صُھَیْبٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ اِذَا دَخَلَ اَھْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی تُرِیْدُوْنَ شَیْئًااَزِیْدُکُمْ فَیَقُوْلُوْنَ اَلَمْ تُبَیِّضْ وُجُوْھَنَا اَلَمْ تُدْخِلْنَا الْجَنَّۃَ وَتُنْجِنَا مِنَ النَّارِ قَالَ فَیُرْفَعُ الْحِجَابُ فَیَنْظُرُوْنَ اِلٰی وَجْہِ اللّٰہِ تَعَالٰی فَمَا اُعْطُوْا شَیْئًا اَحَبَّ اِلَیْھِمْ مِنَ النَّظَرِ اِلٰی رَبِّھِمْ ثُمَّ تَلَا ﴿ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃ﴾) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب اثبات رویۃ المومنین فی الاخرۃ ربھم سبحانہ و تعالی] ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (ﷺ) نے فرمایا کہ جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے تب اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا تم مزید کوئی نعمت چاہتے ہو، جو تمہیں عطا کروں ؟ وہ عرض کریں گے، کیا آپ نے ہمارے چہروں کو روشن نہیں فرمایا؟ کیا آپ نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا اور دوزخ سے نہیں بچایا ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا، تب پردہ اٹھا دیا جائے گا۔ تمام جنتی رب العزت کے چہرے کا دیدار کریں گے۔ انہیں ایسی کوئی نعمت عطا نہیں ہوئی ہوگی‘ جو پر ور دگار کے دیدار سے انہیں زیادہ محبوب ہو۔ اس کے بعد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ” جن لوگوں نے اچھے عمل کیے ان کے لیے جنت ہے اور مزید بھی۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم پر چلاتا ہے۔ 3۔ نیکی کرنے والوں کے لیے بھلائی اور انعام و اکرام ہیں۔ 4۔ نیکی کرنے والے ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ 5۔ نیکی کرنے والوں کے چہرے ذلت و رسوائی سے محفوظ ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن : قیامت کے دن نیک اور بد لوگوں میں فرق : 1۔ قیامت کے دن نیک لوگوں کے چہروں پر ذلت اور نحوست نہ ہوگی اور وہ جنت میں رہیں گے۔ (یونس :26) 2۔ برے لوگوں کے چہروں پر ذلت چھائی ہوگی انہیں اللہ سے کوئی نہ بچا سکے گا۔ (یونس :27) 3۔ مومنوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے (القیامۃ :22) 4۔ کفار کے چہرے بگڑے ہوں ہو گے۔ (الحج :73) 5۔ مومنوں کے چہرے خوش و خرم ہوں گے (عبس :38) 6۔ کفار کے چہروں پر گردو غبار ہوگا۔ (عبس :40) 7۔ مومنوں کا استقبال ہوگا۔ ( الزمر :73) 8۔ خدا کے باغیوں پر پھٹکار ہوگی۔ (یونس :27)