وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ ۙ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَٰذَا أَوْ بَدِّلْهُ ۚ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
اور جب ان (کافروں) پر ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں جو ہم سے ملنے کی توقع [٢٢] نہیں رکھتے تو کہتے ہیں: ’’اس قرآن کے سوا کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں [٢٣] تبدیلی کردو‘‘ آپ ان سے کہئے: ’’مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں تبدیلی [٢٤] کر دوں۔ میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو میں بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں‘‘
فہم القرآن : (آیت 15 سے 17) ربط کلام : مجر موں اور ہلاک ہونے والوں کا یہ بھی جرم تھا کہ وہ کتاب الٰہی کا انکار کرتے اور آخرت کے منکر تھے۔ پہلے ہلاک ہونے والوں کی طرح اہل مکہ کا کردار بھی یہی تھا کہ وہ قیامت کے دن کی جواب دہی کا تصور بھول چکے تھے۔ جس بنا پر اس قدر بے خوف اور دلیر ہوئے کہ جب بھی ان کے سامنے ٹھوس اور واضح آیات نازل ہوتیں یا نبی معظم (ﷺ) ان کے سامنے کوئی معجزہ پیش کرتے تو وہ سر تسلیم خم کرنے کی بجائے گردن اکڑا کر یہ کہتے کہ ہم اسے ہرگز نہیں مانیں گے۔ اگر ہمیں منوانا چاہتے ہو تو۔ اس قرآن کی جگہ کوئی دوسری کتاب لے آؤ اگر یہ ممکن نہیں تو کم از کم اس میں اتنی تبدیلی ضرور کرو۔ جس میں ہمارے اور تمہارے درمیان مفاہمت کی کوئی راہ نکل آئے۔ اس کے لیے ان کی ایک تجویز یہ تھی کہ کچھ تم نرمی اختیار کرو اور کچھ ہم اپنے موقف سے ہٹ جاتے ہیں۔ (القلم :9) اس طرح ایک اللہ کی عبادت کے ساتھ ہمارے معبودوں کی عبادت کے لیے بھی گنجائش ہونی چاہیے۔ اس کے جواب میں رسول مکرم (ﷺ) کو حکم ہوا کہ آپ ان سے فرمائیں کہ میں اپنی طرف سے قرآن میں کسی قسم کی تبدیلی کرنے کا مجاز نہیں ہوں۔ میں تو کلی طور پر اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی طرف سے وحی کا پابند ہوں۔ میں اس قدر اللہ کے حکم کا تابع ہوں کہ اگر میں کوئی ایک بات چھپاؤں تو گویا کہ میں نے اس کی رسالت کا حق ادا نہیں کیا۔ (المائدہ :67) مجھے ڈر ہے کہ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے عظیم عذاب دبوچ لے گا۔ ہوش کرو! اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہوتا تو میں کبھی بھی تمہارے سامنے قرآن پڑھتا اور نہ ہی توحیدکی دعوت پیش کرتا۔ کیا تم غور نہیں کرتے کہ میں نے چالیس سال کا عرصہ تم میں گزارا ہے۔ اور اس پورے عرصہ میں نہ میں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور نہ ہی اللہ کے ذمہ کوئی بات لگائی۔ اگر تم تھوڑا سا عقل سے کام لو تو میری سچائی اور قرآن کی صداقت کو سمجھ جاؤ گے۔ لیکن قرآن کے دلائل، نبی اکرم (ﷺ) کی صداقت اور عقلی دلیل کے باوجود کفار یہی پروپیگنڈہ کرتے رہے کہ ” محمد (ﷺ) “ نے یہ کتاب اپنی طرف سے بنا ڈالی ہے۔ جس پر انہیں انتباہ کیا گیا ہے کہ اس شخص سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہوسکتا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولے یا تمہاری طرح اس کی آیات کو جھٹلائے جس کا صاف معنیٰ ہے کہ حضرت محمد (ﷺ) سچے ہیں مگر تم جھوٹے اور کذّاب ہو۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا یا اس کی آیات اور ضابطوں کو ٹھکرانا سب سے بڑا جرم ہے۔ مجرم کبھی کامیاب نہیں ہوا کرتے۔ اس میں بیک وقت دو اشارے دیے جارہے ہیں۔ کہ رسول کامیاب ہوں گے اور اس کا انکار کرنے والے ہر صورت دنیا اور آخرت میں ناکام ہوں گے۔ دوسرا یہ کہ حضرت محمد (ﷺ) سچے رسول اور یہ قرآن من جانب اللہ اور تم اپنے موقف اور الزام میں سر اسر جھوٹے ہو۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ﴿ وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ﴾ خَرَجَ النَّبِیُّ (ﷺ) حَتّٰی صَعِدَ الصَّفَا فَجَعَلَ یُنَادِیْ یَابَنِیْ فِھْرٍ یَابَنِیْ عَدِیٍّ لِبُطُوْنِ قُرَیْشٍ حَتَّی اجْتَمَعُوْا فَجَعَلَ الرَّجُلُ اِذَا لَمْ یَسْتَطِعْ اَنْ یَّخْرُجَ اَرْسَلَ رَسُوْلًا لِیَنْظُرَ مَاھُوَ فَجَاءَ اَبُوْ لَھَبٍ وَقُرَیْشٌ فَقَالَ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَخْبَرْتُکُمْ اَنَّ خَیْلاً تَخْرُجُ مِنْ سَفْحِ ھٰذَا الْجَبَلِ وَفِیْ رِوَایَۃٍ اَنَّ خَیْلًا تَخْرُجُ بالْوَادِیْ تُرِیْدُ اَنْ تُغِیْرَ عَلَیْکُمْ اَکُنْتُمْ مُصَدِّقِیَّ قَالُوْا نَعَمْ مَا جَرَّبْنَا عَلَیْکَ اِلَّا صِدْقًا قَالَ فَاِنِّیْ نَذِیْرٌ لَّکُمْ بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ قَالَ اَبُوْ لَھَبٍ تَبًّا لَّکَ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا فَنَزَلَتْ ﴿تَبَّتْ یَدَااَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ﴾) [ رواہ البخا ری : باب ﴿ وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ﴾] ” عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ” آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں“ تو نبی (ﷺ) نکلے اور صفا پہاڑی پر چڑھ گئے‘ آپ پکارنے لگے‘ اے بنو فہر! اے بنوعدی! اسی طرح آپ نے قریش کے تمام قبائل کو مخاطب کیا۔ یہاں تک کہ وہ آپ (ﷺ) کے گرد جمع ہوگئے۔ اور جو شخص نہ آسکا تو اس نے یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کیا معاملہ ہے، اپنا نمائندہ بھیج دیا۔ چنانچہ ابولہب اور قریش کے لوگ آئے۔ آپ نے فرمایا‘ تم مجھے بتاؤ‘ اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ ایک لشکر اس پہاڑ کی اوٹ سے نکل رہا ہے۔ اور دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ایک لشکر وادیِ سے نکل رہا ہے وہ تم پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے‘ تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے؟ ان سب نے اثبات میں جواب دیا اور کہا کہ ہم نے آپ کے بارے میں ہمیشہ سچائی کا تجربہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا‘ میں تمہیں اس شدید عذاب سے ڈرا رہا ہوں جو تمہیں پیش آنے والا ہے۔ یہ سن کر ابو لہب کہنے لگا‘ تباہ ہوجائے کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا؟ اس پر یہ سورت نازل ہوئی ” ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ و بربادہو جائے۔“ مسائل : 1۔ آخرت کے منکر اس قرآن کے علاوہ کسی اور قرآن کا مطالبہ کرتے ہیں۔ 2۔ رسول اکرم (ﷺ) بھی وحی کے تابع تھے۔ 3۔ نبی کریم (ﷺ) بھی قرآن مجید میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کر سکتے۔ 4۔ رسول کریم (ﷺ) اللہ کے عذاب سے ڈرتے تھے۔ 5۔ نبی کریم (ﷺ) نے لوگوں کے سامنے اپنا ماضی بطور نمونہ پیش کیا۔ تفسیر بالقرآن: منکرین کا قرآن مجید کے ساتھ رویہ: 1۔ منکرین اس قرآن کے علاوہ قرآن یا اس میں تبدیلی کا مطالبہ کرتے تھے۔ (یونس: 15) 2۔ منکرین کہتے ہیں کہ نبی کو ایک آدمی قرآن سکھاتا ہے۔ (النحل: 103) 3۔ کافر کہتے تھے کہ ہم اس قرآن کے ساتھ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔ (سبا: 31) 4۔ کافر کہتے تھے کہ قرآن ایک بار نازل کیوں نہیں ہوا۔ (الفرقان: 32) 5۔ قرآن مجید میں لوگوں کے لئے ہر قسم کی مثال بیان کی گئی ہے مگر اکثر نا شکرگزار انکار کرتے ہیں۔ (الکہف: 54)