سورة التوبہ - آیت 124

وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَٰذِهِ إِيمَانًا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جب کوئی (نئی) سورت نازل ہوتی ہے تو منافقوں میں چھ لوگ ایسے ہیں جو (مسلمانوں سے) کہتے ہیں کہ: ’’اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان [١٤٣] میں اضافہ کیا ؟‘‘ تو (اس کا جواب یہ ہے کہ) جو لوگ ایمان لائے ہیں، اس سورت نے فی الواقع ان کے ایمان میں اضافہ کیا ہے اور وہی (اس سورت کے نازل ہونے پر) خوش ہوتے ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 124 سے 125) ربط کلام : قتال فی سبیل اللہ کی بنیادی پالیسی اور تربیتی بیان کے بعد منافقوں کی قرآن مجید کے بارے میں روش بیان کی جاتی ہے۔ منافق کا بنیادی مرض یہ ہوتا ہے کہ اس کا اللہ اور اس کے رسول پر حقیقی ایمان نہیں ہوتا۔ جس کی وجہ سے وہ ہر وقت شک اور تذبذب کا شکار رہتا ہے۔ اسی وجہ سے منافقین نئی آیات سنتے تو تمسخر کے طور پر مسلمانوں سے کہتے کہ بتائیں جناب ان آیات کے اترنے سے تمہارے ایمان میں کیا اضافہ ہوا ہے؟ جس کے جواب میں مسلمان کہتے کہ ہم تو اپنی راہنمائی اور ایمان میں اضافہ محسوس کررہے ہیں۔ اس پر منافق شرمندہ ہو کر رہ جاتے اور ان کی منافقت میں اور اضافہ ہوجاتا۔ یاد رہے البقرۃ آیت 10میں منافقت کو مرض اور یہاں منافقت کو گندگی اور کفر قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ لوگ کفر کی حالت میں مریں گے۔ جس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ منافق حقیقی ایمان لانے کی بجائے تادم آخر نفاق پر ہی جان دیں گے۔ کفر اور نفاق مرض اور گندگی ہیں : ﴿فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ بِمَا کَانُوا یَکْذِبُوْنَ﴾[ البقرۃ:10] ” ان کے دلوں میں بیماری ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں زیادہ کردیا اور انہیں دردناک عذاب ہوگا کیونکہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔“ ﴿وَأَمَّا الَّذِیْنَ فِی قُلُوْبِہِمْ مَرَضٌ فَزَادَتْہُمْ رِجْسًا إِلٰی رِجْسِہِمْ وَمَاتُوْا وَہُمْ کٰفِرُوْنَ﴾ [ التوبۃ:125] ” اور رہے وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے تو اس نے ان کی پلیدی کے ساتھ اور پلیدی کا اضافہ کردیا اور وہ اس حال میں مرے کہ وہ کافر تھے۔“ مومن کی حالت : ﴿إِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیَاتُہٗ زَادَتْہُمْ إِیْمَانًا﴾[ الانفال :2] ” جب ان کے سامنے اس کی آیات پڑھی جائیں تو ان کا ایمان بڑھا دیتی ہیں۔“ ﴿وَإِذَا مَا أُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ فَمِنْہُمْ مَنْ یَّقُوْلُ أَیُّکُمْ زَادَتْہُ ہٰذِہِٓٓ إِیْمَانًا فَأَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْہُمْ إِیْمَانًا وَہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ [ التوبۃ:124] ” اور جب بھی کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں اس نے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ کیا ہے ؟ پس جو لوگ ایمان لائے، ان کے ایمان میں تو اس نے اضافہ کیا ہے اور وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔“ مسائل : 1۔ قرآن مجید کی تلاوت سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ 2۔ منافق عناد کی وجہ سے قرآن مجید کی تاثیر کا انکار کرتے ہیں۔ 3۔ ایمان والے قرآن مجید کی تلاوت سے خوش ہوتے ہیں۔ 4۔ قرآن مجید کے نزول سے منافقین کی منافقت میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ 5۔منافق کا خاتمہ کفر پر ہوگا۔ تفسیر بالقرآن : منافق کے نفاق میں اضافہ : 1۔ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے اللہ ان کی پلیدی کو اور بڑھا دیتا ہے۔ (التوبۃ :125) 2۔ منافقوں کے دلوں میں بیماری ہے اللہ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا۔ (البقرۃ :10) 3۔ آپ دیکھیں گے ان لوگوں کو جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ اس کی طرف جلدی کرتے ہیں۔ (المائدۃ:52) 4۔ منافق اور جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کے وعدے کو فراڈ سمجھتے ہیں۔ (الاحزاب :12)