سورة التوبہ - آیت 91

لَّيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَىٰ وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِن سَبِيلٍ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

کمزور اور مریض اور وہ لوگ جن کے پاس شرکت جہاد کے لئے خرچ کرنے کو کچھ نہیں، (اگر پیچھے رہ جائیں) تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے خیرخواہ [١٠٤] ہوں۔ ایسے محسنین پر کوئی الزام نہیں اور اللہ درگزر کرنے والا رحم کرنے والا ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 91 سے 93) ربط کلام : جھوٹے عذر پیش کرنے والوں کے لیے اذیت ناک عذاب ہے اور حقیقی عذر رکھنے والوں پر کوئی گناہ نہیں۔ بعض حالات میں ہر مسلمان پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے تبوک کا جہاد بھی فرض عین ہوچکا تھا۔ جہاد فرض عین ہونے کے باوجود چار قسم کے لوگوں کو جہا د سے رخصت دی گئی ہے۔ 1۔ ایسا کمزور جو بڑھا پا، صغر سنی یا کسی جسمانی کمزوری کی وجہ سے جہاد میں شرکت کرنے سے قاصر ہو۔ 2۔ وہ شخص جو دائمی مرض یا وقتی بیماری کی وجہ سے جہاد میں شامل نہ ہو سکے۔ 3۔ جہاد مال اور جان کے ساتھ کرنا فرض ہے اگر کوئی غربت کی وجہ سے دفاعی فنڈ میں حصہ نہیں لے سکتا تو اس پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔ 4۔ جو شخص سواری نہ ہونے کی وجہ سے میدان کار زار میں نہیں پہنچ سکتا، باوجود اس کے کہ اس کے پاس کوئی اور عذر نہیں اسے مجبور سمجھ کر معاف کردیا گیا ہے کیونکہ محاذ جنگ دور ہونے کی وجہ سے وہ اس میں شریک نہیں ہوسکتا۔ غزوۂ تبوک کے موقعہ پر کچھ مخلص مسلمان ایسے بھی تھے جن کے پاس 300میل طویل سفر کرنے کے لیے سواری نہیں تھی وہ آپ کی خدمت میں آکر عرض کرتے کہ اے اللہ کے رسول ہماری جان حاضر ہے مگر محاذ پر پہنچنے کے لیے ہم سواری نہیں رکھتے۔ لہٰذا ہمارے لیے سواری کا بندوبست فرمائیں آپ نے فرمایا کہ ہمارے پاس مزید سواریوں کا انتظام نہیں ہے جواب سن کر یہ لوگ زار و قطار روتے ہوئے واپس ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کو ان کا اخلاص اس قدر پسند آیا کہ رہتی دنیا تک ان کے اخلاص کو خراج تحسین عطا فرمایا اور ایسے لوگوں کی ڈھارس بند ھاتے ہوئے فرمایا کہ جو شرعی عذر کی بنا پر جہاد میں شرکت نہ کرسکیں ان پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ایک دفعہ پھر ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جو مال دار اور وسائل رکھنے کے باوجود جہاد سے جی چراتے ہیں اور پیچھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھ رہنے پر راضی ہیں درحقیقت اللہ تعالیٰ نے ان کے جھوٹے بہانوں اور منافقت کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر ثبت کردی ہے اب یہ لوگ اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھنے کے شعور سے محروم ہوچکے ہیں۔ معذور مخلصین کا مقام : (عَنْ جَابِرٍ قَالَ کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ () فِی غَزَاۃٍ فَقَالَ إِنَّ بالْمَدِینَۃِ لَرِجَالًا مَا سِرْتُمْ مَسِیرًا وَلَا قَطَعْتُمْ وَادِیًا إِلَّا کَانُوا مَعَکُمْ حَبَسَہُمْ الْمَرَضُ)[ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ باب ثواب من جسہ عن النفر مرض اور عذر] ” حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں ہم ایک غزوۂ میں رسول معظم (ﷺ) کے ساتھ تھے آپ نے فرمایا بلاشبہ مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں وہ تمھارے ساتھ تھے جہاں تم لوگوں نے قیام کیا یا کسی وادی کو عبور کیا وہ مدینے میں اپنی بیماری کی وجہ سے ٹھہرے رہے۔“ اس فرمان میں نبی (ﷺ) نے ان لوگوں کو غزوہ تبوک میں شریک تصور کیا ہے جو بیماری یا سواریاں نہ ہونے کی وجہ سے اس غزوہ میں عملاً ا شریک نہیں ہوسکے تھے بے شک وہ شریک سفر نہ تھے لیکن ان کے جذبات اور دعائیں ہمہ وقت مسلمانوں کی کامیابی کے لیے وقف تھیں۔ اس لیے آپ نے انہیں شریک ثواب گردانا ہے۔ غزوہ تبوک میں سواریوں کی قلت کا یہ عالم تھا کہ ایک اونٹ پر کئی کئی صحابہ سوار ہوتے اس کے باوجود انہوں نے باریاں مقرر کر رکھی تھیں جس بنا پر کچھ لوگ اپنی باری پر پیدل چلنے پر مجبور تھے۔ (عَنْ أَبِی مُوسَی (رض) قَالَ أَرْسَلَنِی أَصْحَابِی إِلَی رَسُول اللَّہِ () سْأَلُہُ الْحُمْلاَنَ لَہُمْ، إِذْ ہُمْ مَعَہُ فِی جَیْشِ الْعُسْرَۃِ وَہْیَ غَزْوَۃُ تَبُوکَ فَقُلْتُ یَا نَبِیَّ اللَّہِ، إِنَّ أَصْحَابِی أَرْسَلُونِی إِلَیْکَ لِتَحْمِلَہُمْ فَقَالَ وَاللَّہِ لاَ أَحْمِلُکُمْ عَلَی شَیْءٍ وَوَافَقْتُہُ، وَہْوَ غَضْبَانُ وَلاَ أَشْعُرُ، وَرَجَعْتُ حَزِینًا مِنْ مَنْعِ النَّبِیِّ () وَمِنْ مَخَافَۃِ أَنْ یَکُون النَّبِیُّ () وَجَدَ فِی نَفْسِہِ عَلَیَّ، فَرَجَعْتُ إِلَی أَصْحَابِی فَأَخْبَرْتُہُمُ الَّذِی قَال النَّبِیُّ () فَلَمْ أَلْبَثْ إِلاَّ سُوَیْعَۃً إِذْ سَمِعْتُ بلاَلاً یُنَادِی أَیْ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ قَیْسٍ فَأَجَبْتُہُ، فَقَالَ أَجِبْ رَسُول اللَّہِ () یَدْعوکَ، فَلَمَّا أَتَیْتُہُ، قَالَ خُذْ ہَذَیْنِ الْقَرِینَیْنِ وَہَذَیْنِ الْقَرِینَیْنِ لِسِتَّۃِ أَبْعِرَۃٍ ابْتَاعَہُنَّ حینَئِذٍ مِنْ سَعْدٍ فَانْطَلِقْ بِہِنَّ إِلَی أَصْحَابِکَ فَقُلْ إِنَّ اللَّہَ أَوْ قَالَ إِنَّ رَسُول اللہ () یَحْمِلُکُمْ عَلَی ہَؤُلاَءِ فَارْکَبُوہُنَّ فَانْطَلَقْتُ إِلَیْہِمْ بِہِنَّ، فَقُلْتُ إِنَّ النَّبِیَّ () حْمِلُکُمْ عَلَی ہَؤُلاَءِ وَلَکِنِّی وَاللَّہِ لاَ أَدَعُکُمْ حَتَّی یَنْطَلِقَ مَعِی بَعْضُکُمْ إِلَی مَنْ سَمِعَ مَقَالَۃَ رَسُول اللَّہِ () لاَ تَظُنُّوا أَنِّی حَدَّثْتُکُمْ شَیْئًا لَمْ یَقُلْہُ رَسُول اللَّہِ () فقالُوا لِی إِنَّکَ عِنْدَنَا لَمُصَدَّقٌ، وَلَنَفْعَلَنَّ مَا أَحْبَبْتَ فَانْطَلَقَ أَبُو مُوسَی بِنَفَرٍ مِنْہُمْ حَتَّی أَتَوُا الَّذِینَ سَمِعُوا قَوْلَ رَسُول اللَّہِ () مَنْعَہُ إِیَّاہُمْ، ثُمَّ إِعْطَاءَ ہُمْ بَعْدُ )[ رواہ البخاری : باب غَزْوَۃُ تَبُوکَ، وَہْیَ غَزْوَۃُ الْعُسْرَۃِ] ” حضرت ابی موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے ساتھیوں نے رسول اللہ (ﷺ) کے پاس بھیجا تاکہ میں آپ سے سواریوں کا مطالبہکروں تاکہ وہ آپ کے ساتھ جنگ تبوک میں شریک ہو سکیں۔ میں نے عرض کی اللہ کے نبی مجھے میرے ساتھیوں نے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکے آپ ہمارے لیے سواریوں کا انتظام فرمایں۔ آپ نے فرمایا اللہ کی قسم میں تمہیں سواری نہیں دونگا میں نے آپ کو غصے کے عالم میں پایا۔ میں آپ کی کیفیت نہ سمجھ سکا۔ میں نبی کریم (ﷺ) کی ناراضگی اور نہ دینے کی وجہ سے پریشان لوٹا اور اپنے ساتھیوں کو صورتحال سے آگاہ کیا، آپ (ﷺ) نے فرمایا تھا۔ میں تھوڑی ہی دیر ٹھہراتھاکہ میں نے بلال کی آواز کو سنا وہ آوازیں دے رہا تھا اے عبداللہ بن قیس میں نے بلال کو جواب دیا اس نے کہا رسول اللہ (ﷺ) کا پیغام ہے کہ آپ کی بات سنیں۔ جب میں آپ کے پاس آیاتو آپ نے مجھے چھ اونٹ دیتے ہوئے فرمایا یہ سواریاں لے جا میں نے یہ ابھی ابھی سعد سے خریدی ہیں۔ جاکر اپنے ساتھیوں سے کہو کہ اللہ کے رسول نے یہ سواریاں دی ہیں۔ میں نے وہاں موجود صحابہ سے کہا اللہ کی قسم میں تب تلک یہاں سے نہیں جاؤنگا جب تک یہاں بیٹھنے والوں میں سے کوئی جاکر نہ کہ دے جس نے رسول اللہ (ﷺ) کی بات کو سنا ہے تاکہ میرے ساتھی یہ تصور نہ کریں کہ میں ایسی بات کر رہا ہوں جو آپ (ﷺ) نے نہیں فرمائی انہوں نے کہا ہم تیری بات کی تصدیق کرتے ہیں تو حضرت ابو موسیٰ ان لوگوں کو ساتھ لیکر آیا جنہوں نے آپ کی بات کو سنا تھا کہ آپ نے پہلے انکار کیا اس کے بعد سواریاں عطاکردیں۔“ مسائل : 1۔ کمزوروں، مریضوں اور سواری نہ پانے والوں پر جہاد میں عدم شرکت پر کوئی گناہ نہیں۔ 2۔ غربت کی بنا پر جہاد میں چندہ نہ دینے والے پر کوئی گناہ نہیں۔ 3۔ شرعی عذر کے بغیر جہاد فرض ہونے کے باوجود جو لوگ شرکت نہیں کرتے ان کے دلوں پر اللہ تعالیٰ مہر ثبت کردیتا ہے۔