سورة التوبہ - آیت 19

أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ لَا يَسْتَوُونَ عِندَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کو آباد کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر بنا دیا جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرے؟[١٨] اللہ کے نزدیک یہ برابر نہیں ہوسکتے اور اللہ ظالموں کو سیدھی راہ نہیں دکھاتا

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : اہل مکہ ہر قسم کے جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود سمجھتے تھے کہ وہ حرم کے موروثی وارث اور حجاج کرام کے خدام ہیں اس لیے ہماری تولیت کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر مؤاخذہ کرتے ہوئے حرم کے متولی کے اوصاف کا ذکر ضروری سمجھا گیا ہے۔ مسجد حرام اور دیگر مساجد کی تولیت کا استحقاق رکھنے والوں کے اوصاف بیان کرنے کے بعد مشرکین مکہ کے حوالے سے واضح کیا جا رہا ہے کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ حجاج کرام کی خدمت کرنا، انھیں زمزم پلانا، مسجد حرام کی تولیت اور تعمیر کرنانیک کام ہیں۔ بے شک یہ عظیم کام ہیں لیکن ایمان باللہ، ایمان بالآخرت اور جہاد فی سبیل اللہ کے برابر نہیں ہو سکتے۔ مسجد حرام کی تعمیر و ترقی، حجاج کو زمزم پلانا اور ان کی خدمت کرنے کا انھی لوگوں کو اجر ملے گا جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والے یعنی توحید خالص کا عقیدہ اپنانے اور آخرت کی جوابدہی پر ایمان رکھنے کے ساتھ اپنے مال اور نفس کے ساتھ دین کی سربلندی کے لیے جہاد کرنے والے ہوں۔ جو لوگ ان اوصاف سے تہی دامن ہوں بے شک وہ مسجد حرام کی خدمت اور حجاج کرام کو چلو بھر بھر کر پانی پلائیں اور ان کے لیے اپنے مکان خالی کردیں یا صبح و شام انھیں کھانا کھلائیں اگر ان کے عقیدہ میں شرک کی آمیزش ہوگی تو ان کا کوئی عمل بھی اللہ کی بارگاہ میں مستجاب نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشرک اور مواحد برابر نہیں ہو سکتے مشرک ظالم ہوتا ہے اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اختیارات اور اس کی صفات کو دوسروں میں تصور کرتا ہے جو پرلے درجے کی بے انصافی اور زیادتی ہے لہٰذا مشرک ظالم ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ (عن عُمَر بن الْخَطَّابِ (رض) قَالَ لَمَّا کَانَ یَوْمُ خَیْبَرَ أَقْبَلَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَاب النَّبِیِّ () فَقَالُوا فُلَانٌ شَہِیدٌ فُلَانٌ شَہِیدٌ حَتّٰی مَرُّوا عَلٰی رَجُلٍ فَقَالُوا فُلَانٌ شَہِیدٌ فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ () کَلَّا إِنِّی رَأَیْتُہُ فِی النَّارِ فِی بُرْدَۃٍ غَلَّہَا أَوْ عَبَاءَ ۃٍ ثُمَّ قَالَ رَسُول اللّٰہِ () یَا ابْنَ الْخَطَّابِ اذْہَبْ فَنَادِ فِی النَّاسِ أَنَّہُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ قَالَ فَخَرَجْتُ فَنَادَیْتُ أَلَا إِنَّہُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ) [ رواہ أحمد] ” حضرت عمربن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں خیبر کے دن نبی اکرم (ﷺ) کے صحابہ کرام (رض) میں سے کچھ لوگ آئے انہوں نے کہا فلاں شہید ہے فلاں بھی شہید ہے یہاں تک کہ انہوں نے کسی آدمی کا تذکرہ کیا کہ فلاں بھی شہید ہے تو رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا بلاشبہ میں اس کو مال غنیمت میں سے چرائی گئی چادر میں لپٹا دیکھ رہا ہوں جو کہ جہنم کی آگ سے جلائی جارہی ہے پھر رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا اے ابن خطاب لوگوں میں اعلان کردو جنت میں صرف مومنین ہی داخل ہوں گے عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں میں نے وہاں سے اٹھ کر لوگوں میں اعلان کردیا جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ () مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَغْزُ وَلَمْ یُحَدِّثْ بِہٖ نَفْسَہُ مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃٍ مِنْ نِفَاقٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ، باب ذم من مات لم یغز ولم یحدث بہ نفسہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا جو کوئی اس حالت میں فوت ہوا کہ اس نے نہ کبھی جہاد کیا اور نہ ہی کبھی اس کے دل میں اس کی خواہش پیدا ہوئی بلاشبہ وہ نفاق کی ایک علامت پر مرا۔“ مسائل : 1۔ مسجد حرام کی خدمت اور حجاج کو زمزم پلانا ایمان باللہ، ایمان بالآخرت اور جہاد فی سبیل اللہ کے برابر نہیں ہو سکتے۔ 2۔ مشرک ظالم ہوتا ہے اور ظلم کرنے والے کو اللہ ہدایت نہیں دیتا۔ 3۔ جہاد فی سبیل اللہ کرنے والے کو دوسرے لوگوں پر فضیلت بخشی گئی ہے۔ 4۔ کسی کو ہدایت نہ ملنا بہت بڑی بدبختی ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا : 1۔ اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (المائدۃ:108) 2۔ اللہ تعالیٰ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ (القصص :50) 3۔ اللہ تعالیٰ کفار کو ہدایت نہیں دیتا۔ (المائدۃ:67) 4۔ اللہ تعالیٰ جھوٹے اور ناشکرے کو ہدایت نہیں دیتا۔ (الزمر :3)