سورة التوبہ - آیت 6

وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اگر ان مشرکوں میں سے کوئی آپ سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دیجئے تاآنکہ وہ (اطمینان سے) اللہ کا کلام سن لے۔[٦] پھر اسے اس کی جائے امن تک پہنچا دو۔ یہ اس لیے (کرنا چاہئے) کہ وہ لوگ علم نہیں رکھتے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : دین میں کفر و شرک سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں اس کے باوجود توبہ کا دروازہ کھلا رکھا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے توبہ کرنے، نماز اور زکوٰۃ ادا کرنے والے کو اپنی بخشش اور رحمت کی یقین دہانی کروائی ہے۔ اس کے لیے مشرکین کو موقع فراہم کیا جا رہا ہے جو کسی وجہ سے مسلمانوں کے ہاں پناہ گزیں ہونا چاہے۔ تو حکم ہے کہ انھیں پناہ دینی چاہیے تاکہ قرآن مجید سننے اور سمجھنے کے ساتھ انھیں مسلمانوں کا اخلاق اور کردار دیکھنے کا موقع ملے اگر وہ ایمان نہ لائیں گے تو ان پر پوری طرح اتمام حجت ہوجائے گی۔ پناہ کی مدت ختم ہونے کے بعد ان کی باسلامت واپسی بھی اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پناہ دینا اس لیے ضروری ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو اللہ کے دین کو براہ راست نہیں جانتے۔ اس فرمان میں مشرکین کو پناہ دینے کی حکمت یہ بیان فرمائی تاکہ یہ اللہ کا کلام براہ راست سنیں اور اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ دین سمجھنے اور اس کی ہدایت پانے کا پہلا اور بنیادی اصول یہی ہے کہ آدمی تعصب سے پاک ہو کر دل کے کانوں کے ساتھ سننے کی کوشش کرے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسے لوگوں کی اکثریت دین قبول کرنے کے لیے تیار ہوجائے گی۔ اس کی بے شمار مثالیں نبی اکرم (ﷺ) کے دور میں اور ہزاروں امثال صحابہ (رض) اور ہر دور میں پائی جاتی ہیں۔ اسی حکم کے تحت آپ حالت جنگ میں بھی غیر مسلم کو پناہ دیا کرتے تھے یہاں تک کہ عام مسلمان کی دی ہوئی پناہ کو اپنی پناہ تصور فرماتے تھے۔ (عَنْ أَبِی النَّضْر أَخْبَرَہُ أَنَّہُ سَمِعَ أُمَّ ہَانِیءٍ بِنْتَ أَبِی طَالِبٍ تَقُولُ ذَہَبْتُ إِلٰی رَسُول اللّٰہِ () عَامَ الْفَتْحِ فَوَجَدْتُہُ یَغْتَسِلُ وَفَاطِمَۃُ ابْنَتُہُ تَسْتُرُہٗ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ فَقَالَ مَنْ ہَذِہِ فَقُلْتُ أَنَا أُمُّ ہَانِئٍ بِنْتُ أَبِی طَالِبٍ فَقَالَ مَرْحَبًا بِأُمِّ ہَانِئٍ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِہِ قَامَ فَصَلَّی ثَمَانِیَ رَکَعَاتٍ مُلْتَحِفًا فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ فَقُلْتُ یَا رَسُول اللّٰہِ زَعَمَ ابْنُ أُمِّی عَلِیٌّ أَنَّہُ قَاتِلٌ رَجُلًا قَدْ أَجَرْتُہُ فُلَانُ بْنُ ہُبَیْرَۃَ فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ()قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ یَا أُمَّ ہَانِئٍ قَالَتْ أُمُّ ہَانِئٍ وَذَلِکَ ضُحًی )[ رواہ البخاری : کتاب المغازی باب، امان النساء وجوارہن] ” حضرت ابو نضر بیان کرتے ہیں انھوں نے ام ھانی (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں رسول مکرم (ﷺ) کے پاس فتح مکہ کے سال گئی آپ (ﷺ) غسل فرما رہے تھے جبکہ ان کی بیٹی فاطمہ ان کے لیے پردہ کا اہتمام کیے ہوئے تھی۔ میں نے آپ کو سلام کیا آپ (ﷺ) نے پوچھا کون ہے ؟ میں نے کہا میں ام ھانی ہوں آپ نے خوش آمدید کہا۔ جب آپ (ﷺ) غسل سے فارغ ہوئے آپ نے آٹھ رکعت نماز ادا فرمائی۔ آپ نے ایک ہی کپڑے کو اپنے ارد گرد لپیٹا ہوا تھا۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول (ﷺ) میرا ماں جایا بھائی علی (رض) کہتا ہے کہ اس نے فلاں کافر کو قتل کرنا ہے جبکہ میں نے اسے امان دے دی ہے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا اے ام ھانی جس کو تو نے امان دی ہم بھی اس کو امان دیتے ہیں۔ ام ھانی (رض) فرماتی ہیں یہ چاشت کا وقت تھا۔“ (عَنْ رِفَاعَۃَ بْنِ شَدَّادٍ الْقِتْبَانِیِّ قَالَ لَوْلَا کَلِمَۃٌ سَمِعْتُہَا مِنْ عَمْرِو بْنِ الْحَمِقِ الْخُزَاعِیِّ (رض) لَمَشَیْتُ فیمَا بَیْنَ رَأْسِ الْمُخْتَارِ وَجَسَدِہٖ سَمِعْتُہٗ یَقُولُ قَالَ رَسُول اللّٰہِ () مَنْ أَمِنَ رَجُلًا عَلٰی دَمِہِ فَقَتَلَہٗ فَإِنَّہُ یَحْمِلُ لِوَاءَ غَدْرٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)[ رواہ ابن ماجہ : کتاب الدیات، باب من امن رجلا علی دمہ] ” رفاعہ بن شداد قتبانی بیان کرتے ہیں اگر وہ حدیث نہ ہوتی جو میں نے عمرو بن حمق خزاعی (رض) سے سنی تو میں مختار کے سر اور جسم کے درمیان چلتا میں نے سنا عمرو بیان کرتے تھے رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا جو شخص کسی کو جان کی امان دے کر قتل کر دے۔ قیامت کے دن اس کی پشت پر دھوکے باز کا جھنڈالگایا جائے گا۔“ مسائل : 1۔ غیر مسلم پناہ مانگیں تو انھیں پناہ دینی چاہیے۔ 2۔ وعدوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔ 3۔ قیدیوں کو دین کی دعوت دینی چاہیے۔ 4۔ امان دے کر اس کو پورا کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : نہ جاننے اور نہ سمجھنے والے لوگ : 1۔ متقین کے لیے آخرت کا گھر بہتر ہے مگر کافر نہیں سمجھتے۔ (الاعراف :169) 2۔ میرا اجر میرے پیدا کرنے والے اللہ کے ذمہ ہے بے عقل نہیں سمجھتے۔ حضرت صالح کا اعلان۔ (ھود :51) 3۔ منافق بے سمجھ ہوتے ہیں۔ (المنافقون :7) 4۔ اللہ نے ان کے دلوں کو پھیر دیا کیونکہ یہ بے عقل لوگ ہیں۔ (التوبۃ:127) 5۔ وہ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور ان کی اکثریت بے عقل ہوتی ہے۔ ( المائدۃ :103) 6۔ وہ بہرے گونگے اور اندھے ہیں اور وہ عقل نہیں کرتے۔ (البقرۃ:171)